Wednesday, October 14, 2015

اپنے حصے کا چراغ

مڈویک میگزین، روزنامہ جنگ کراچی مورخہ 14 اکتوبر، 2015


براہ راست پڑھنے کے لیے کلک کریں 
http://e.jang.com.pk/10-14-2015/karachi/mag8.asp

Monday, October 12, 2015

بچیوں کے عالمی دن پر

بچیوں کے عالمی دن پر میرا مضمون سنڈے میگزین، روزنامہ  جنگ میں پڑھیے
http://e.jang.com.pk/10-11-2015/karachi/mag21.asp



Saturday, August 15, 2015

میری داستان ہجرت

یہ بات ہے 1956 کی جب ہجرت پر مستقل پابندی لگ چکی تھی اور ابھی ہندوستان کے بہت سے مسلمان  پاکستان  آنا چاہتے تھے۔خاص طور پر حیدرآباد  دکّن پر ہندوستان کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں کے مسلمان پاکستان آنا چاہتے تھے۔
ہم اس وقت حیدرآباد میں تھے اور والد صاحب وہاں محکمہ کوآپریٹو سوسایٹیز میں آفیسر تھےقبضہ کے بعد حیدرآباد  دکّن میں عازمِ پاکستان ہونا جرم تھا۔

Monday, August 10, 2015

گیدڑ خان

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے
                رستم خان نے بیوی سے کہا   ،  ُ  ُ اوئے شیر خان کو اٹھاؤ بھیجو اس کو چھلیاں دے کر اسٹاپ پر۔سب نہیں جائیں گے کام پر تو یہ دس آدمی کہاں سے جہنم بھریں گے۔صبح کی بسیں نکل جائیں گی تو چھلیاں کون خریدے گا”
ُ  ُ اسے آج رہنے دو کل کوئلے جلاتے ہوئے اس کا ہاتھ جل گیا تھا۔رات بھرتکلیف سے روتا رہا ہے۔آج اسے میں مولوی صاحب کے پاس لے جاؤں گی وہ اسے کچھ دم کر یں گے کچھ دوا دیں گے ۔ ہاتھ کچھ ٹھیک ہوگا تو بھیج دونگی۔ آج کرم خان اکیلا گیا ہے۔جاتے میں اس کی روٹی لے جانا۔”
                شیر خان آٹھ بچوں میں سب سے چھوٹا تھا اور کوئی پانچ چھ سال کا تھا۔بس اسٹاپ پر اپنے بھائی کے ساتھ مکئی کے بھٹے بیچتا تھا۔
                ُ  ُ مولوی صاحب شیر خان کا ہاتھ جل گیا ہے۔اس کو کوئی دوا دے دیں رات بھر روتا رہا ہے۔کچھ دم کریں  تکلیف کم ہو۔”

Saturday, August 8, 2015

گدھا گاڑی ادب

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے
آپ نے رکشہ ٹیکسیوں وغیرہ کے پیچھے تو ڈرائیور ادب اکثر پڑھا ہوگا۔ بڑا مزیدار ہوتا ہے ۔ ایک ادب گدھا گاڑی والوں کا لائیو ادب ہوتا ہے۔ پورے قدیمی کراچی خاص طور پر جونا مارکٹ سے لے کر لی مارکٹ تک بلوچ گدھا گاڑی والے باربرداری کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ بلوچ بڑے محنتی اور بذلہ سنج ہوتے ہیں۔تمام دن اپنی گدھا گاڑی پر لائیو کمنٹری کرتے رہتے ہیں۔ان علاقوں میں اتنا  رش ہوتا ہے کہ پیدل چلنا مشکل ہوتا ہے،ایسے میں گدھا گاڑی اور وہ بھی اوور لوڈ ہو تو ایسے میں کتنا مشکل کام یہ انجام دیتے ہیں۔ اس تمام کام کے درمیان ان کی کومنٹری مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اکثر ان علاقوں میں جانا ہوتا ہےاس لائیو ادب کی جھلکیاں حاضرِنظر ہیں۔

Thursday, August 6, 2015

اچھی نسل کی مائی دابی

ایک پیرمرد درویش کے پاس  ایک نوجوان  بنام امام دین حصول  علم کے لئے حاضر ہوا۔پیر مرد درویش اپنے وقت کا باکمال درویش تھا۔ لمبی زلفیں، خوبصورت داڑھی ،نورانی چہرہ ،قراءت میں ایسا کہ چلتے راہی راستہ بھول جائیں ،ستارے رک رک کر روانہ ہوں ، پرندے اپنی اڑان بھول جائیں اورچاند ڈوبنا بھول جائے۔یہ پیر مرد درویش ایک مزار اسم نامعلوم عرف پیر غائب  کی خدمت پر معمور ہوتا تھا۔قبر کی جھاڑو خود تین وقت شروع کرتا پھر خدام ہاتھ سے جھاڑو لے لیتے۔ جمعرات کی رات  نذرانے کا بکس پیر غائب کی نسبت سے غائب کر دیتا۔جواز اس کا یہ  تھا کہ پیر غائب نمائش و نمود کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جمعرات کے دن  اس رقم سے مخلوق خدا کو لنگر کھلاتا۔ اس دیہاتی علاقے میں  دیگ کے چاول بڑی غنیمت ہوتے تھے۔

Thursday, July 16, 2015

کالا پلمبر

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے

مکان نمبرایک سو تیس خیابان رومی ڈیفنس منزل تھی اس پلمبر کی جس کو کسی نے یہاں زبردستی بھیجا تھا۔ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد اس نے جہاں تک ممکن تھا نوکری کی کوشش کی۔ جنگ کی وجہ سے پورا بلکہ اب آدھا ملک جو باقی رہ گیا تھا انتہائی بیروزگاری کا شکار تھا۔پوری کوشش کے باوجود اسے کہیں نوکری نہ ملی۔ہر جگہ ایک ہی جواب تھا کہ ہماری کمپنی کے وہ ملازمین جو مشرقی پاکستان سے آرہے ہیں ، پہلے ان کو جگہ دیں گے۔ یہ جواب جو کچھ سال جاری رہا پھرتبدیل ہو کر کسی کوٹہ سسٹم میں بدل گیا۔ میٹرک پاس کلرکوں میں اپلائی کیا تو پتہ چلا کہ کوٹے میں آپ کی جگہ نہیں بنتی ۔بھلا ہو اکرام الدین چنگیزی کا کہ وہ آٹھویں جماعت سے ہی اسکول چھوڑ کر اپنے باپ کے ساتھ کام پر جانے لگا

Thursday, June 25, 2015

کولہو کا بچہ: ماخوذ

ایک موتیوں کا بیوپاری تھا ۔سالہا سال سے موتی بیچتا تھا ۔عمر رسیدہ نیک آدمی تھا ۔ نزدیکی ممالک کے جن شہروں میں جاتا وہاں کے نامور موتی فروش اسے جانتے تھے۔ اصلی موتی بیچتا تھا ۔ ۔ تجارت کے لئے ساری عمر گھوڑے پر سفر کیا۔ایک روز وہ سراندیپ کے موتی لے کر ملک بے لگام کے شہر شہر بے چراغ جارہا تھا۔راستے میں رات ہو گئی۔اس کی گھوڑی بھی کچھ بے چین تھی ،سو اس نے ایک راستے کی بستی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ تیلیوں کی بستی تھی۔نام تھا اس بستی کا تیل پور۔تیل پور کے مکھیا نے بیوپاری کو اپنے گھر میں ٹھہرایا اور جو خدمت ہو سکتی تھی وہ کی۔

Monday, June 15, 2015

پاربتی پور کا بوڑھا


ایک بوڑھا پاربتی پور میں ایک تالاب کے کنارے رہتا تھا۔اس کے باپ نے بانسوں کی بنی ہوئی ایک جھونپڑی ،تین چھالیہ کے درخت اور دو دڑبے اس کے لئے چھوڑے تھے جو اس کی کل کائنات تھی ۔ تالاب کے کنارے کچھ کیلے کے درخت تھے جن سے مچھلی کیلے کا سالن پکا لیتے یا محلے والے مانگ کر لے جاتے۔ ۔ایک بڑا دڑبہ اور ایک چھوٹا۔چھوٹے دڑبے میں کچھ بطخیں تھیں جو اس کی روزی کا کچھ ذریعہ تھیں ۔

Friday, June 12, 2015

پوپری: نصف صدی پرانی ایک زندہ کہانی



شمیم الدین غوری کے کی بورڈ سے . . .


فقیرا  ڈاکو
        اس سے برداشت نہ ہوتا تھا کہ کوئی اس  کے ماں باپ  کی بے عزتی کرے۔ چھوٹا سا  تھا دیکھتا کہ  روز روز بنیا آکر رقم کا مطالبہ کرتا ہے  گالیاں دیتا ہے   اور بے عزتی کرتا ہے۔کیا کرتا صرف اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہتا۔ اس رقم کا جو اس کے پیدا ہونے پر بڑے ہسپتال کے اخراجات کے لئے اس کی ماں نے لی تھی۔نمعلوم کتنی رقم دے چکے لیکن بیاج پر بیاج اور بے عزّتی الگ۔یہ سب دیکھتے اس کی جوانی آگئی۔
ماں کواس کی  شادی کی سوجھی۔ ایک بار پھر  بنیے کے در پر گئی اور اس کی شادی ہو گئی۔
دو ساون گزر گئے۔

Thursday, June 11, 2015

بندر کی شادی


ایک بندر نے اعلان کیا کہ وہ بندروں میں شادی نہیں کرے گا۔بڑے بندر نے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ اس نے کچھ دن ڈاکٹر سید اسلم کے روشندان کےپاس گزارے ہیں۔ وہ ہر ایک کو کہتے ہیں کہ کزن میرج سے بڑی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں بہت پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔تھیلی سیمیا کا مرض تو ہوتا ہی کزن میرج سے ہے۔ اس لئے اب میرے لئے کوئی دلہن کسی اور سپیشی کی تلاش کی جائے۔