Saturday, August 15, 2015

میری داستان ہجرت

یہ بات ہے 1956 کی جب ہجرت پر مستقل پابندی لگ چکی تھی اور ابھی ہندوستان کے بہت سے مسلمان  پاکستان  آنا چاہتے تھے۔خاص طور پر حیدرآباد  دکّن پر ہندوستان کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں کے مسلمان پاکستان آنا چاہتے تھے۔
ہم اس وقت حیدرآباد میں تھے اور والد صاحب وہاں محکمہ کوآپریٹو سوسایٹیز میں آفیسر تھےقبضہ کے بعد حیدرآباد  دکّن میں عازمِ پاکستان ہونا جرم تھا۔

Monday, August 10, 2015

گیدڑ خان

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے
                رستم خان نے بیوی سے کہا   ،  ُ  ُ اوئے شیر خان کو اٹھاؤ بھیجو اس کو چھلیاں دے کر اسٹاپ پر۔سب نہیں جائیں گے کام پر تو یہ دس آدمی کہاں سے جہنم بھریں گے۔صبح کی بسیں نکل جائیں گی تو چھلیاں کون خریدے گا”
ُ  ُ اسے آج رہنے دو کل کوئلے جلاتے ہوئے اس کا ہاتھ جل گیا تھا۔رات بھرتکلیف سے روتا رہا ہے۔آج اسے میں مولوی صاحب کے پاس لے جاؤں گی وہ اسے کچھ دم کر یں گے کچھ دوا دیں گے ۔ ہاتھ کچھ ٹھیک ہوگا تو بھیج دونگی۔ آج کرم خان اکیلا گیا ہے۔جاتے میں اس کی روٹی لے جانا۔”
                شیر خان آٹھ بچوں میں سب سے چھوٹا تھا اور کوئی پانچ چھ سال کا تھا۔بس اسٹاپ پر اپنے بھائی کے ساتھ مکئی کے بھٹے بیچتا تھا۔
                ُ  ُ مولوی صاحب شیر خان کا ہاتھ جل گیا ہے۔اس کو کوئی دوا دے دیں رات بھر روتا رہا ہے۔کچھ دم کریں  تکلیف کم ہو۔”

Saturday, August 8, 2015

گدھا گاڑی ادب

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے
آپ نے رکشہ ٹیکسیوں وغیرہ کے پیچھے تو ڈرائیور ادب اکثر پڑھا ہوگا۔ بڑا مزیدار ہوتا ہے ۔ ایک ادب گدھا گاڑی والوں کا لائیو ادب ہوتا ہے۔ پورے قدیمی کراچی خاص طور پر جونا مارکٹ سے لے کر لی مارکٹ تک بلوچ گدھا گاڑی والے باربرداری کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ بلوچ بڑے محنتی اور بذلہ سنج ہوتے ہیں۔تمام دن اپنی گدھا گاڑی پر لائیو کمنٹری کرتے رہتے ہیں۔ان علاقوں میں اتنا  رش ہوتا ہے کہ پیدل چلنا مشکل ہوتا ہے،ایسے میں گدھا گاڑی اور وہ بھی اوور لوڈ ہو تو ایسے میں کتنا مشکل کام یہ انجام دیتے ہیں۔ اس تمام کام کے درمیان ان کی کومنٹری مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اکثر ان علاقوں میں جانا ہوتا ہےاس لائیو ادب کی جھلکیاں حاضرِنظر ہیں۔

Thursday, August 6, 2015

اچھی نسل کی مائی دابی

ایک پیرمرد درویش کے پاس  ایک نوجوان  بنام امام دین حصول  علم کے لئے حاضر ہوا۔پیر مرد درویش اپنے وقت کا باکمال درویش تھا۔ لمبی زلفیں، خوبصورت داڑھی ،نورانی چہرہ ،قراءت میں ایسا کہ چلتے راہی راستہ بھول جائیں ،ستارے رک رک کر روانہ ہوں ، پرندے اپنی اڑان بھول جائیں اورچاند ڈوبنا بھول جائے۔یہ پیر مرد درویش ایک مزار اسم نامعلوم عرف پیر غائب  کی خدمت پر معمور ہوتا تھا۔قبر کی جھاڑو خود تین وقت شروع کرتا پھر خدام ہاتھ سے جھاڑو لے لیتے۔ جمعرات کی رات  نذرانے کا بکس پیر غائب کی نسبت سے غائب کر دیتا۔جواز اس کا یہ  تھا کہ پیر غائب نمائش و نمود کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جمعرات کے دن  اس رقم سے مخلوق خدا کو لنگر کھلاتا۔ اس دیہاتی علاقے میں  دیگ کے چاول بڑی غنیمت ہوتے تھے۔