Thursday, July 14, 2016

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
موضوع بہت حساس ہےاور میں منٹو نہیں۔تجربات زندگی اگربیان نہ کئے جائیں تو  ایسا لگتا ہے کہ دل پر بوجھ لئے  راہئ عدم ہو جائیں گے اور  تحریری  کام میں کچھ تشنگی باقی رہ جائے گی۔
            شروع کرتا ہوں کراچی کے پلازہ سنیما کے بس اسٹاپ سے جہاں چلتی گاڑیوں پر بلوچ لڑکے بھاگ بھاگ کر گاڑی والوں کو کام کرنے کے لئے پکڑتےہیں۔دس پندرہ گاڑیوں پر ٹرائی کرنےکے بعد ایک آدھ گاڑی ہاتھ آجاتی ہے تو وہ اسے استاد کے حوالے کر کے  پھر سڑک پر نئے شکار کی تلاش میں بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔دن بھر یہ اپنی کچی بستیوں سے روزگار کی تلاش میں آکر شام کو چند روپے لے کر گھر جاتے ہیں ۔کسی دن کوئی شکار ہاتھ نہ آئے تو دوپہر کو کالو چھولے والے سے یا حاجی استاد کے دال چاول والے ٹھیلے سے کھا نا کھا کر خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔اگلے دن حساب کرتے ہیں۔اس ذکر کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

چین کے ایک  شہر کن منگ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ روٹی وہاں 5 یون کی تھی۔یعنی پاکستانی 80 روپے کی۔سوچا کہ  بیلن مل جائے تو خود روٹی پکا لیں۔اب بیلن بتائیں کیسے دکاندار کو سمجھائیں کیسے۔  زبان کا مسئلہ چین میں ہمیشہ سے پریشان کن رہا ہے۔قاہرہ میں بیٹی سے سیکھا تھا کہ جب پریشان ہوتے لوگوں کی طرف جا کربلند  آواز لگاتے   " ہیلو اینی باڈی نوز انگلش "  تو کوئی نہ کوئی مل جاتا اور مشکل آسان ہوجاتی۔ایک بازار جو اپنے جوڑیا بازار جیسا بھیڑ بھاڑ والا اور تنگ سا تھا اس میں بہتیری آوازیں  لگائیں کہ  " ہیلو اینی باڈی نوز انگلش " لیکن معاملہ حل نہ ہوا۔ایک چینی سیلز گرل کو بتایا اشارے سے سمجھایا کچھ سمجھ اسے نہ آیا۔ کاغذ پر بیلن بنایا  اسے سمجھ نہ آیا۔سوچا گول ڈنڈا سا مل جائے، ایک پائپ سا بناکر سمجھایا اور وہ سمجھ گئی اور خوب سمجھ گئی۔پاکستانیوں کو ٹورزم والے شہروں میں خوب سمجھا جاتا ہے۔بہت اچھی طرح جانا جاتا ہے۔
وہ بیچاری مجھے روائتی پاکستانی سمجھی اور ایک گلی میں لے گئی۔مجھ سے دس یون لئے اور ایک کاؤ نٹر پر دے کر مجھے اوپر بھیج دیا ۔سیڑھیوں میں ایک زندگی سے تھکے ہوئے  بڑے میاں مجھے پکڑ کراوپر ہال میں  لے گئے۔ایکدم اندھیرے میں جانے کی وجہ سےکچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہےمیں ڈر گیا کہ کسی مافیا نے اغوا کر لیا ہے۔ اندر اندھیرا سگریٹ اور شراب کی بو۔لائٹ  بتدریج آن ہوئی تو جوڑے جوڑے الگ الگ ہو گئے۔دیکھا  موسیقی کے ساتھ 40لڑکیاں سٹیج پر جا رہی تھیں۔ سٹیج پر ایسے کھڑی ہو گئیں  جیسے شو روم میں زندہ گڑیاں۔  کپڑوں کا ذرا یہاں کال تھا اور  حد ادب کے تقاضوں کے تحت بھی کم از کم اتنا تحریر ہے کہ   جوبن  باہر گرا پڑتا تھا۔چند منٹ کی لائٹ میں لگ بھگ بارہ لڑکیوں کو   گاہک مل گئے ،باقی سب محروم۔ تماش بین میری طرح  کھڑے ہیں یا بیٹھے ہیں اور ٹھرک جھاڑ رہے ہیں، آنکھیں سینک رہے ہیں۔10 یون وصول کر رہے ہیں۔ جو محروم رہ گئیں وہ ہم جیسوں کو پکڑ پکڑ کر اٹھا رہی ہیں اور ہم اٹھنے کو تیار نہ تھے ۔لائٹ بند ہو گئی   اور دس منٹ کی عملی ٹھرک یا عیاشی  شروع ہو گئی ۔زیادہ دل کیا تو سامنے والے دروازے سے  کیبن نما کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے چلے گئے ۔ اس کے پیسے کچھ زیادہ ہونگے ۔ مجھے پلازہ والے لڑکے یاد آگئےجو گاڑیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک جاتے ہیں اور بزنس نہیں ملتا۔ایسا ہی ان نازنینوں یا بغیر چلی گولیوں یا  پُھس ماچسوں کا حال تھا۔

ہم اپنے پاکستان میں اگر ایسی کوئی شے تلاش کریں تو اول تو ملنا مشکل دوسرے   کمیابی جس سے نخرے یا بے حیائی میں بھی کچھ حیا ءنظر آتی ہے۔ جس بات کا افسوس ہےوہ یہ کہ  اس محفل میں بے حیائی  میں بھی   بے عزتی اور محرومی ۔ نازنین ہیں  کہ حسرت و یاس کی تصویر بنی   باہیں پھیلا کر کھڑی  ہیں اور کوئی پوچھنے ولا نہیں۔پچاس نہیں تو بیس دے دو ورنہ دس دے دو۔اور سودا بھی چلو زیادہ لے لو۔چلو ایک کی جگہ دو کلو لے لو لیکن پھر بھی محروم۔پکڑ پکڑ کر منتیں کر رہی ہیں  کہ یار آجا، اٹھ جا ، ابے آتو سہی اور نتیجہ بس بیس پچیس فیصد۔حسرت و یاس کی بھوکی نگاہیں دیکھ کر لگتا تھا  کلیجہ پھٹ جائے گا ۔ایسی  وحشت ناک آنکھیں کہ یہ  وقفہ بھی خالی جا رہا ہے۔ان آنکھوں میں ساری کہانی نظر آتی تھی۔کسی سے آنکھ ملانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔لگتا تھا کہ اس سارے معاملے کا قصور وار میں ہوں۔ کیونکہ میں ایک مرد ہوں۔ایک مرد کی حیثیت سے ان کا یہ حال کیوں ہونے دیا میں نے۔میں ایک مسلمان ہوں۔میں نے اپنا وقت دین کی تبلیغ میں لگا کر ان جیسے معاشرے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا۔میں بس مسلمانوں کو ہی مسلمان بناتا رہا۔تبلیغ اور کلمے اپنے مسلمانوں کے ہی سیدھے کراتا رہا۔یہاں تک کیوں نہیں آیا۔ایسی ارزانی جنس  کبھی تصور تک میں نہ تھی۔ہوٹلوں میں  ا ن کے اشتہار اور فون نمبر عام رکھے ہوتے ہیں۔افسوس اور صد افسوس کہ صنف نازک جو قدرتی طور پر شرم حیا کا پیکر ہوتی ہیں ان کا ایسا برا حال۔جی چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور ہم سب اس میں غرق ہو جائیں۔
اتنے میں  مجھےبیلن اور روٹی یاد آگئی اور میں اس بدبودار بھنگڑخانے سے بھاگ نکلا۔ بھائی لوگواپنا پاکستان جیسا ہے بہت اچھا ہے۔یہاں دل کو کچوکے نہیں لگتے ۔ بس صرف دل جلتا ہے محرومیوں پر
بس مل گیا ہمیں بیلن اور ہم نے پکا لی روٹیاں۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں



Thursday, June 30, 2016

خیراں مائی

خیراں
 بوٹے کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے۔ اب تو لوگ اسے دوسری شادی کا مشورہ دینے لگے تھے۔ جمعرات کوبوٹا جب کھیت میں چلا جاتا تو اس کی گھر والی  مسجد میں تیل ڈالنے اور مولوی صاحب سے دعا کے کرانے حجرے میں چلی جاتی۔ چکر لگاتےآخر کار اللہ میاں مہربان ہوا۔اور دائی جنداں نے خوشی کی امید دلائی۔مولون نے اس کی بیوی کومشورہ دیا  کہ  شاہ صاحب کی دیگ بانٹ دے تو انشااللہ خیر ہی خیر ہوگی۔ ۔بوٹے نے  مولوی صاحب  سے آٹھ آ نےمسجد میں تیل کے  اور ایک مرغی دے کر سعد گھڑی نکلوائی۔ جو ہمیشہ کی طرح آنے والی جمعرات کو ظہر کے بعد کی تھی۔لکڑیاں محلے  کے لڑکے کاٹ لائے آئے۔چاول گھرکے تھے اور دیگر سامان  بنئے کے ہاں سے ادھار آگیا۔اپنی ایک بکری مولوی صاحب سے کٹوا کر   دوپہر میں دیگ کر دی ۔ نیاز دلوانے کے بعدبڑا حصہ اور بہت سی  بوٹیاں  مولوی صاحب کو بھجوا دیں آخر انہوں نے اس نیک کام کو بغیر معاوضہ انجام دیا تھا۔
بوٹے  کے آنگن میں ایک شہزادی ایک حور پری جیسی  بیٹی نے جنم لیا۔دوسری شادی کا مشورہ دینے والے خاموش ہو گئے۔نام اس کا نوری رکھا لیکن ایک بزرگ نے جو اس کو خیراں کہا تو خیراں کے نام سے مشہور ہو گئی ۔ اس  کی خوبصورتی اور  اٹھان سے ماں پریشان تھی۔اب اس کے آنگن میں بیری پر پتھر آنے لگے۔پتھروں میں اضافے کی وجہ سے ماں نےکمسنی میں ہی اپنے بھانجے سے بیاہ دیا ۔
گڑیاں کھیلنے کے دن تھے کہ سسرال آگئی۔ساس نے ایک جھونپڑی اپنے کھلے آنگن میں اس طرح بنا دی کہ راستہ اس کی جھونپڑی کے سامنے سے گزرے۔جھونپڑی سرکنڈوں کی بنی تھی۔اس پر سردی اور بےپردگی  کے بچاؤ کے لئے مٹی کا لیپ کرنا تھا۔شوہر نے گارے میں بھوسہ ملا کر پیروں سے اسے گوندھ کر تیار کردیااور کھیتوں پر چلا گیا۔ شام تک ساس کے ساتھ مل کر جھونپڑی اورفرش کی لپاِئی کر دی۔دو دن بعد اس کا مٹکا  بستر اور صندوق اس  جھونپڑی  میں رکھا گیا۔یہ اس کا گھر تھا۔اس گھر کی دیواروں اور فرش کو وہ آدھے ٹوٹے گھڑے میں بھیگی ہوئی ملتانی مٹی کا پوچہ لگاتی تو گویا سارا گھر نیا ہو جاتااور تمام دن مٹی کی خوشبو مہکتی رہتی۔یہ ایک محبت بھرا گھر تھا۔یہ خیراں کا گھر تھا۔
اس کا شوہر اللہ دتہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔وہ جو کہتی پورا کرتا۔اس نے جھونپڑی میں تین جانب ایک کارنس بنوایا جس پر اپنے ہاتھ سے کڑھائی  کی ہوئی ریشمی کپڑے  کی جھالر ڈالی ۔سسر شہر گیا تو اس کے لئے ایک ٹرانزسٹر ریڈیو لے آیا۔اس  نے کروشیے سے اس کا خوبصورت کور  بنا یا  جھالر والا ۔ اللہ دتہ  جب اس کو بجاتا ہوا نکلتا تو سارا گا ؤ ں دیکھتا اوروہ فخر سے پھول جاتا۔ اللہ دتہ کھیت میں اس سے گانے اور خبریں سنتا اور شام کو  آتا توسونے تک پورا گھر اس سے خبریں اور گانے سنتا رہتا۔
کم عمری اورماں بنے کی اہلیت میں کچھ تال میل کی کمی ہوتی ہے۔یہی خیراں کے ساتھ ہوا۔دائی نے کہا کہ  یہ کیس اس کے بس کا نہیں۔شہر کی  لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ سول ہسپتال کا کیس ہے۔سول ہسپتال میں اللہ دتہ کو بتایا کہ جڑواں  بچے ہیں۔بڑا آپریشن ہوگا۔خون کا بندوبست کرو۔یہ بھی بتا دو کہ کس کی زندگی عزیز ہے۔بچوں کی یا بیوی کی؟ وہ ہکا بکا رہ گیا اور کچھ نہ بولا۔بس اتنا کہا کہ اللہ رحم کرے گا۔اللہ نے رحم کر دیا  ایک ساتھ دو بچے زندہ سلامت اور بیوی بھی زندہ لیکن سلامت نہیں۔تین ماہ میں تین آپریشن ہوئے اللہ اللہ کر کے نارمل زندگی کی جانب لوٹ آئی ۔لیکن اب مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم۔
خیراں کے دن اب اپنے بچوں اور شوہر کی خدمت میں گزرتے۔بچوں کو سکول میں داخل کیا۔ایک جھونپڑی اور بنا لی اس میں بھی وہی ملتانی مٹی کا پوچہ لگانا۔اللہ دتہ اب خوب محنت سے کام کرتا۔اس کا باپ اب اس کے ساتھ کام نہیں کرسکتا تھااس لئے اسے ساری زمین اکیلے ہی سنبھالنی  پڑتی۔ساس نے بھی  ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دیں۔اب وہ ہل بیل۔کدال۔پھاوڑے،درانتی،رسیاں،بکریاں،چارہ پانی سب کی نگرانی کرتی اس نے اللہ دتہ سے کہہ کر کھیتی باڑی اور گھرداری   کا کافی سامان جمع کر لیا تھا تاکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی ضروریات پوری کر سکے۔
خیراں سب کے لئے خیر ہی خیر تھی۔۔محلے سے کوئی ستلی مانگنے آتی کوئی پیاز لینے چلا آرہا ہے کوئی کدال مانگ رہا ہے تو کوئی درانتی مانگنے آتا ۔کسی کے گھر میں گندم ختم ہو گئی تو ایک آدھی بوری دے دی کہ تین ماہ باقی ہیں جب تک کے لئے تو کافی گندم ہے۔ کسی کو ہل چاہئے ہوتاتوکوئی ہتھوڑا مانگ رہا ہے ۔ ۔ایک ایک چیز کا اسے پتہ تھا کہ  کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔جو آتاسے کہتی جاکر چھوٹی جھونپڑی میں لال پیٹی سے نکال لو یا کہتی سامنے ٹوکرے میں درانتی پڑی ہے نکال لو۔اللہ دتہ اگر کوئی چیز   رکھوا دیتا تو دس سال بعد بھی پتہ ہوتا تھا کہ کہاں رکھی ہے۔۔ہر رنگ کا دھاگہ سوئی،سوئا قینچی کیا کیا اس سے مانگنے محلے کی عورتیں آتیں اور اس کے پا س کبھی انکار نہ ہوتا۔ ایک فیض تھا جو اس گھر سے پوری بستی کے لئے جاری تھا۔
 بچے میٹرک کر کے شہر چلے گئے۔پہلے سسر کا انتقال ہوا۔چند ماہ بعد ساس چل بسیں۔کام کا بوجھ بڑھ گیا۔بکریاں بھینس مرغیاں،شوہر کی روٹی لے جاناکھیتوں کی نگرانی کرنا ایک بڑا کام تھا۔وہ تو شکر ہے کہ محلے کی لڑکیاں بالیاں اس کے کام کرا دیتیں۔اللہ دتہ نے نئی ہنڈا موٹر سائیکل لی اور اس پر بٹھا کر اسے شہر لے گیا۔ بچوں کے کالج بھی گئی۔اپنی  گاڑی پر سفر کر کے  اسے ایسا لگا کہ وہ کوئی ملکہ یا مہا رانی یا چوہدرائن ہے۔ سال میں دو تین مرتبہ بچے آتے تو اس کی عید ہو جاتی۔کالج کی پڑھائی تھی اوربچے محنتی ۔خوب دل لگا کر پڑھتے اور اچھے نمبر لاتے۔
زرعی بیج،کھاد،کیڑے مار ادویات اور تمام آلات کا اس کے پاس حساب ہوتا،خود کہتی اگلے ماہ گندم اگانی ہے اس کا بیج الگ رکھا ہے۔اس ماہ کھاد ڈالنی ہے تو اس ماہ دوا چھڑکنی ہے۔اس کے اس سگھڑ پن سے اللہ دتہ جس کے باپ کا گھرانہ مشکل سے اس زمین سے گزارہ کرتا تھا اب اس قابل ہو گیا تھا کہ مزید زمین خرید لے۔بچوں نے زرعی کالج سے ڈگریاں لیں۔ادھر زمین مزید بڑھ گئی۔اللہ دتہ بھی اب بوڑھا ہونے لگا۔اس کی  کوشش تھی کہ  کسی طرح بچے اب زمینداری سنبھالیں اور وہ حج پر چلا جائے۔
بچوں نے آکر زمین سنبھالی۔ ان کی پڑھائی نے دو تین سال میں زمینوں پر اپنا اثر دکھایا۔کیا فصل ہونے لگی کمال ہو گیا۔ ایک ایکڑ میں آٹھ من گندم تو تیس من  چاول۔تمام پیسہ ہمیشہ کی طرح خیراں کے پا س جمع ہوتا۔بیج لینے جانا ہو یا باردانہ بچے اپنی اماں کو ساتھ لے کر جاتے اور  اور وہ ادائیگی کرتی۔سارا گاؤں اور شہر کے دکاندار اسے جانتے تھے۔اکژبڑی رقموں کا سودا ہوتا تو دکاندار کہتے خیراں مائی پیسے مت لایا کرو ہم خود آکر لے جائیں گے۔ زمین  بڑھتی گئی اور کام کر نے والے بھی بڑھتے گئے۔بچوں کے لئے دو پکے کمرے بنوا دئے لیکن خود اپنے اسی گھر میں رہی۔اللہ دتہ حج سے آکر اللہ اللہ میں لگ گیا۔بچوں پر پورا بھروسہ تھااور وہ اس پر پورے اتر رہے تھے۔
بچوں کی شادی  کے لئے دو لڑکیاں دیکھیں  بھلا ان کو کون انکار کرتا۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ۔اگلے پانچ سال میں اللہ نے پانچ پوتا پوتی دے دئے اور ان کا دادا لے لیا۔اس کا اللہ دتہ اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔اب خیراں بچوں کو بھی پالتی اور ساری چوہدراہٹ سنبھالتی۔اس کے نزدیک بہووں کو بچے پالنے نہیں آتے تھے۔اب وقت کے ساتھ ساتھ بچے بڑے ہونے لگے اور کمرے چھوٹے۔دونوں بیٹوں نے پروگرام بنایا کہ ایک شاندار حویلی ۔جہاں سے زمیں شروع ہوتی ہے وہاں بنوائی جائے۔وہ جگہ اونچی بھی ہے اور آنے والوں کو بھی آسانی ہوگی۔حویلی  کے لئے شہر سے ایک ٹھیکیدار  کو بلایا گیا۔خیراں خوش تھی کہ اس کے بچے بھی اب بڑے زمینداروں اور چوہدریوں کی طرح رہیں گے۔
ایک شاندارڈبل منزل حویلی اللہ دتّہ ہاؤس کے نام سے تیار ہو گئی۔بیس کمرے،دالان،سٹورز اٹیچ باتھ، راہداریاں،اور نمعلوم کیا کیا اس میں بنوایا گیا۔تیار ہونے کے بعدپہلے قران خوانی اور پھر ایک شاندار دعوت عام دی گئی جس میں تین دن لنگرعام ہوتا رہا۔گائیں ایک کے بعد ایک کٹتی گئیں اور تندور دن رات چلتا رہا۔اس سے فارغ ہو کر سامان شفٹ کرنے کی باری آئی۔سال ہا سال کا  رکھا ہوا سامان چھانٹا گیا۔بہو بیٹے  پوتے پوتیاں یہ کام کرتے رہے۔ہر پرانی چیز کو یہ کہ کررد کردیا کہ کر اب اس کا زمانہ نہیں۔
اماں یہ کیا پرانا ٹرانسسٹر رکھا ہوا ہے۔اتنی مٹی اس میں گھسی ہوئی ہے،جراثیم اس میں سے کسی کو لگ جائیں گے۔بچے بیمار ہو جائیں گے۔
اماں یہ کیا اتنی الجھی ہوئی نلکیاں جمع کی ہوئی ہیں۔کون اب کپڑے سیتا ہے گھر میں اور ہر رنگ کی نلکی تو بازار میں مل جاتی ہے۔ان کا کیا کرنا ہے۔کون انہیں سلجھائے گا۔
اماں حد کر دی یہ پچاس سال پرانے ڈیزائن کے کپڑے آپ نے سنبھال کر رکھے ہیں آپ کے تو اب یہ آئیں گے بھی نہیں کسی کو دے دیتے ہیں ثواب ہوگا۔ ان کپڑوں کو دینے والی چیزوں کے ڈھیر میں ڈال دیا گیا۔خیراں ایک ایک کپڑے کو دیکھتی اور اسےیاد آتا کہ یہ سوٹ اللہ دتہ نے فلاں کی شادی میں جانے کے لئے لا کر دیا تھا۔یہ سوٹ کاکوں کی پیدائش والے دن لایا تھا۔یہ سوٹ اماں نے دیا تھا۔یہ میری شادی پر ماسی نے دیا تھا۔وہ تو چلی گئیں لیکن یادگار رہ گئی۔یہ چادر ابا ملتان سے لایا تھا۔غرض کپڑے ڈھیر میں گرتے گئے اسے ہوش ہی نہ تھا کہ بچے کیا کہ رہے ہیں وہ تو ماضی کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔
کاکے کے لئے جو گڈا اس کی ماں نے اپنے ہاتھ سے بنا کر دیا تھا ۔جس کی آنکھیں اور ناک منہ رنگین دھاگوں سے کاڑھ کربنایا تھا ۔کروشئے کا اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا ،میز پوش،ٹرانزسٹر کا پہلا کور،اللہ  دتہ کی پہلی ہنڈا کا اس کے ہاتھ کا سلا سیٹ کور جس پر بیٹھ کر وہ چوہدرانی بنی تھی ۔اور نمعلوم کیا کیا اشیاء اس دور کے حساب سے بیکار پائیں ایک ڈھیر کی صورت اختیار کرگئیں ۔اسے کیا اعتراض ہوتا۔جن کے لئے یہ سب کچھ تھا وہی ان کو پھینک رہے تھے تو پھینکیں۔اللہ دتا کے کھسےّ جنہیں وہ ہمیشہ سنبھال کر رکھتی تھی کہ نمعلوم کب کونسا مانگ لے۔سب بیکار ٹھیرے۔سامان شفٹ ہو گیا۔تمام لوگوں کا اپنا اپنا کمرہ ہو گیا۔
خیراں کو پیچھے کی جانب ایک کمرہ دے دیا گیا تاکہ اسے حویلی سے باہر بھینسوں کی دیکھ بھال کرنےکے لئے آنے  جانے  میں آسانی ہو ۔کتنے دن تو خیراں کو یہ جاننے میں لگ گئے کہ  کون سا کمرہ کس کا ہے۔جب اپنے کچے گھر میں تھی تو سارے پوتے پوتیاں بیٹےبہویں  سامنے ہوتے تھے۔اب سب اپنے اپنے کمروں میں ہوتے۔اسے یہ بھی پتہ نہ ہوتا کہ کون گھر میں ہے اور کون نہیں۔کسی بہو کا بند دروازہ بجاتی تو وہ کہتی اماں بچے سورہے ہیں آہستہ بجایا کرو۔دن میں کام کاج اور بھینسوں کے ساتھ اکیلی اور رات کو اپنے کمرے میں تنہا۔بچوں سے ملاقات کو ترستی۔ اس تنہائی میں وہ اللہ سے دعا کرتی کہ اب وہ اسے بھی اللہ دتہ کے پاس بھیج دے۔جینے کی امنگ ختم ہوچکی تھی۔ اس کا گھر اب ویران پڑا تھا۔یہ گھر اس کا نہ تھا  ،یہ تو بچوں کا گھر تھا جو اس کے گھر کو ویران کر گیا تھا۔ پہلے کی طرح کوئی درانتی مانگنے آتا تو خالی ہاتھ جاتا ۔خیراں کو پتہ ہی نہ چلتا ۔ دروازہ اس کے کمرے سے اتنی دور تھا کہ اسے آواز ہی نہ آتی۔وہ خود نہیں جانتی کہ کون آیا  تھااور خالی ہاتھ چلا گیا۔
ایک دن اس نے اپنے تمام گھر والوں کو کہا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے لوگ خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں۔لگتا ہےاس سال گندم کا بھی اللہ نام کا حصہ نہیں نکالا۔ ۔ تم لوگ نہیں جانتے کہ تمہارے باپ کے گھر سےغربت کے دنوں میں بھی کبھی کوئی سوالی خالی نہیں جاتا تھا۔ ۔بیٹا پہلے یہ حویلی، یہ زمینیں۔ ٹریکٹر،کاریں،ڈرائیور مزارعے کچھ نہیں تھا ۔دو ایکڑ سے تمہارے دادا نے زمینداری شروع کی تھی۔اپنے ہاتھ سے ہل چلاتا تھا۔زمین پر ننگے پاؤں پھرتا تھا کہ زمین ماں ہوتی ہے۔جب اپنا پورا مشکل سے ہوتا تھا تب بھی میں کسی سوالی کو واپس نہیں بھیجتی تھی۔مانگتے کیا ہیں کوئی اوزار یا کچھ گندم۔یا چند روپے۔ہمارے گھر میں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔ ۔یاد رکھو برکت جب ہی ہوتی ہےجب اللہ کے بندوں کو خوش رکھو۔ایک بیٹے نے کہا کہ اماں آپ کو پتہ ہے گندم کتنی مہنگی ہو گئی ہے۔خیراں نے کہا کہ دی کس نے ہے۔جس نے دی ہےاس نے بھا ؤ  بتایا ہے تمہیں ۔اس نے کیا اس میں اپنے بندوں کا حصہ نہیں رکھا جو تم نے نہیں نکالا۔یاد رکھو اگر یہی چلن رہا اس حویلی کا تو وہ دن دور نہیں جب اللہ ناراض ہو گیا تو تمہیں کوئی بھیک بھی نہیں دے گا۔
سب کا یہی خیال تھا کہ امی کو کسی ماہر نفسیات کو دکھایا جائے،وہ سٹھیا گئی ہیں یا بڑھاپے کا اثر ہے۔کوئی ملنے والی آتی تو ایک ہی رونا روتی کہ میرا گھر اب کہاں رہا۔میرا گھر تو وہ تھا جس میں میں روز پوچا لگاتی تھی۔جس کی ایک ایک چیز کا مجھے پتہ تھا۔اب تو مجھے ازار بند ڈالنے کے لئے بھی بہووں کے اٹھنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔فجر کے وقت جو چھاچھ بنتی تھی وہ اب دن کو گیارہ بجے بننے لگی۔کون  پئے   گا  اس وقت۔اب تو بس اللہ اٹھالے اپنے پاس بلا لے۔
گندم کے بعد چاول کی فصل برباد ہوئی تو خیراں کی بات یاد آئی۔سر جوڑ کر بیٹھے کہ اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں۔برکت ختم ہو گئی ہے۔خیراں نے اس کا ایک ہی حل بتایا کہ خیرات کرو۔
 رات کے کھانے پر  بیٹے نےبتایا کہ اماں پرانے گھر کی جگہ ٹریکٹر ٹرالی اور تھریشر کے رکھنے کی جہھ بنانی ہے۔کل اسے گرا دیں گے۔سن کر خیراں سناٹے میں آگئی۔
اس کا گھر گرادیں گے۔اس کی نیند اڑ گئی ۔وہ  رات کو اٹھی اور اپنے گھر کی جانب آگئی۔دیکھا کہ اس میں لوگوں نے غلاظت کی ہوئی ہے۔ اس کاکمرہ، اس کا گھر، اس کا گھروندہ جس میں پچھلے پچاس سال سے ہمیشہ صبح صبح ٹوٹے گھڑے میں پڑی ملتانی مٹی کا سوندھی سوندھی خوشبو والا  پوچہ لگاتی تھا۔جسے وہ ہر بارش سے پہلےمٹی  لیپ  پوت کر ساون کی برسات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتی تھی۔اس کی مٹی میں اس کے  ہاتھوں  کی حنا شامل تھی۔ اس کے گھروندے کی مٹی میں اس کے سہاگ کی محنت اور  پسینہ شامل تھا۔کس طرح اس کے اللہ دتہ  نے شادی کے اگلے دن نور کے تڑکے اٹھ کر مٹی گوندھی تھی اور بنیاد بنا کر کھیت میں چلا گیا تھا۔اس نے ابھی سہاگ کا جوڑا بھی نہ بدلا تھا کہ  اپنا گھرتیا رکرنے کی پڑ گئی تھی۔گارا اور مٹی کی جب اس نے اپنے ہاتھوں سے لپائی کی تھی تو بھوسا اس کی نرم انگلیوں میں گھس گیا تھا اور ان سے خون نکل نکل کر اس گارا میں شامل ہوتا رہا۔اس کے گھر کا یہ حشر۔آنسو نکل آئے۔کھجور کی بنائی ہوئی اس کے ہاتھ کی جھاڑو ایک کونے میں پڑی تھی۔ ساری غلاظت صاف کی اچھی طرح جھاڑو لگائی ۔کھالے سے دوپٹہ بھگو کرپانی لا کر ملتانی مٹی کے آدھے مٹکے میں ڈالا جب نرم ہو گئی تو پوری جھونپڑی میں پوچا لگایا۔مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سونگھتے وہ اپنے ماضی کے سنہرےدنوں کو یاد کر تےکرتے سو گئی۔آج بہت دنوں کے بعد ایسی نیند آئی تھی۔
منہ اندھیرےایک ٹریکٹر آیا اور  اس نے اس ویران کھنڈر کو گرانے کے لئےسپیڈ دی اور ایک ہی وار میں ڈھا دیا۔پھر اس کا ملبہ بلیڈ سے گھسیٹ کر دور ڈال دیا۔واپس ہوا تو دیکھا کہ دور تک خون کا نشان ہے۔سب کھنڈر گرا کر ملبہ ایک جگہ پھینک کر حویلی میں اطلاع دی کہ سارا کام کر دیا ہے۔بس صبح صبح کوئی جانور پہلی جھونپڑی میں تھا جو مارا گیا۔پتہ نہیں کیا تھا بہت خون نکلا۔حویلی والے صبح سے اماں خیراں کی تلاش میں تھے۔کچھ خیال آیا۔بھاگے ہوئے  ملبے  تک آئے  ٹریکٹر سے ملبہ ہٹوا کر دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
شمیم الدین غوری






Saturday, May 7, 2016

کہاں گیا میرا قبیلہ


کہتے ہیں وہ سات بھائی تھے۔ساری ریاست پر ان کی دھاک تھی۔ان کی ملا جلا کر کوئی ساٹھ اولادیں تھی۔ اس دور میں نرینہ  اولاد ہی صرف اولاد کہلاتی تھی۔ ایک سے ایک جنگجوبہادر اورتلوار کا ماہر ۔پھر ان کی اولادیں لازمی سینکڑوں میں ہونگی ۔ ہر بااثر کو انگریز  نے اپنی چمچہ گیری کا شرف بخشا۔ کسی کو نواب  کسی کو ہزاری کسی کو دس ہزاری کسی کو درباری کسی کو لاٹ صاحب کسی کو سر،کسی کو شمس العلماء بنایا۔ یہ سارے بھی ایسے ہی نوازے گئے ہونگے۔جیسا کہ بزرگ بتاتے ہیں اور شجرہ بتاتا ہے ہمارے بڑے، بڑے لوگ تھے۔ ہونگے۔ تمام چمچے بڑے ہی ہوتے تھے ہوتے ہیں اور  مستقبل میں بھی ہونگے۔ جس کو انگریز نے چوم لیا وہی راجہ۔جس پر صاحب مہربان اس پر آسماں مہربان۔نیچے والے کمی کمہار،بوچڑ قصائی، کسب گر اور خدمت گزار بہت عزت دو تواس   دور کے عوام ۔
            کہتے ہیں 1857 میں انہوں نے بادشاہ کا ساتھ دیا  ۔کچھ جنرل بخت کے ساتھ چلے گئے۔ اگر یہ غدر تھا تو انہوں نے غلطی کی۔اگر جنگ آزادی تھی تو صحیح کیا۔  ۔غلطی کی قیمت چکانی پڑتی ہے،خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔اس سے زیادہ غیرت و حمیت کے عمل کا تاوان دینا پڑتا ہے۔ بادشاہ کی شکست۔ پکڑ دھکڑ ۔ پھانسیاں تاریخ کا حصہ ہے۔
 سب بھاگے کوئی یہاں چھپا کوئی وہاں چھپا۔کسی نے نام بدل لیا ۔کسی نے ذات بدل لی۔کسی نے پیشہ بدل لیا۔جس کے جہاں سینگ سمائے وہاں  چل دیا۔کوئی الور کی ریاست میں جا چھپا۔ کسی نے کرنال کی ریاست میں میں پناہ لی۔کوئی رہتک،حصار،جھجھر،گڑگاؤں گیا۔کوئی بھوپال میں پناہ گزیں ہوا۔کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔کچھ دہلی میں جا پڑے۔شیرازہ  بکھر گیا۔اپنی ریاست اپنی بادشاہت اپنی فرعونیت اپنا نام اپنی ذات اپنا پیشہ سپاہ گیری،جاگیرداری چھوڑی اور روپوش ہوگئے ۔ کسی کو کسی کاہوش نہیں۔ کون کہاں گیا کس کس کو  انگریز سرکار نے پھانسی چڑھا دیا؟کون جانے۔اپنی جان بچانا ہی اولین ترجیح تھی۔اپنی ذات کا نام لینا بھی جرم تھا۔
ایک تھے غلام محمد غوری جو خان غلام علی خان گل غوری کے بیٹے اورحبیب الدین غوری قلعہ داررہتاس کے پوتے تھے۔ان کے علم میں تھا کہ کون کہا گیا۔ انہوں نے ہی لوگوں کو جانے کے مشورے دئیے۔چھپنے ،بھیس بدلنے،پیشے اور نام ذات تبدیل کرنے کے مشورے دے کر روانہ کیا۔ انہوں نے آخر وقت تک رہتاس  کو نہ چھوڑا۔قبیلے کے پنچ جو تھے۔  قید ہوکر دہلی آئے۔  اس کے بعد سے آج تک ان کی کوئی خبر نہیں۔خیال ہے کہ انگریز نے دور ان تفتیش مار ڈالا۔یوں سارا قبیلہ بکھر گیا۔ایک دوسرے سےکیسے تعلق ہو ،کس کو کس سے پوچھا جائے۔ایسے بکھرے کہ زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لئے مر گئے۔
اس  زمانے میں کیسے پوچھیں کہ کرنال میں غوری آئے تھے وہ کہاں ہیں۔الور میں رہتاس کے قلعہ داروں کا خاندان آیا تھا  ،کہاں گیا ۔خودکوچھپائیں گے تو کون کسے جانے گا۔انگریز سرکار نے تو ہر غوری کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھانسی دینی تھی۔ ہندو مخبر انعام کے لالچ میں ٹوہ لیتے پھرتے تھے۔ میرا قبیلہ  کہیں خلجی کہیں انصاری  اور کہیں چمار بنا ہوا تھا اور دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پی رہا تھا۔ خوف سے کوئی بتاتا ہی نہ تھا کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔منشی  چراغ دین غوری کی اولاد لوہار بن گئی اب کون جانے کہ کیا غوریوں میں کبھی لوہار بھی ہوئے۔کوئی کارپینٹر کوئی سنار بن گیا۔کوئی چرواہا بن گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ غوری قبیلہ حکمرانی اور قلعہ داری سے نچلے پیشوں میں آ گیا۔مفلسی،تہی دامنی اور دیار غیر کی مشکلات جس پربیتی ہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔کہیں جولاہے بن کر انصاری ہو گئے۔اصلیت چھپاتے چھپاتے اصلیت کو بھول ہی گئے۔ اس چھپن چھپاِِئی کی آدھی صدی  میں گمنام   ہوگئے۔مفلس طبقے کی تمام برائیاں آنا قدرتی بات تھی۔مفلسی پیٹ کو دیکھتی ہے چادر کو نہیں۔
اسی طرح سو سال گزر گئے اور بٹوارے نے رہی سہی امیدیں بھی کبھی قبیلے کے ایک ہونے کی ختم کر دیں۔قبیلہ کہاں گیا؟کوئی نہیں جانتا۔ کیسے کیسےنامی گرامی  فاتحین اور بہادر جن پر قبیلے کو ناز تھا، جن کی   شجاعت کی داستانیں افغانستان سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی  ہیں،جن کے نام سے پرتھوی راج کی نسلیں آج تک خوف کھاتی ہیں، ان کی ہڈیوں تک کا پتہ نہیں۔کس کس کو کہاں دفنا آئے، کس کی لاش کو بے گورو کفن چیل کوے کھا گئے۔جن بیبیوں کی کپڑوں کی خریداری محلو ں اور حویلیوں میں مغلانیوں کے ذریعے  ہوتی تھی وہ بے پردہ جان بچانے کو بھاگتی پھرتی تھیں ۔ان  کی لاشیں نمعلوم کون کون سے  کنووں میں پڑی پڑی گل سڑگئیں۔ نجانے  کس کس کے مزاروں پر ٹریکٹر چل گیا کون جانے۔سو سال کی  بے نامی جلاوطنی،بن باس،غریب الوطنی کے مزار پر آخر کار پاکستان بن گیا۔جو بچی کھچی قبریں تھیں انہیں بھی چھوڑ آئے۔
بتایا گیا کہ  یہ تمہارا گھر ہے۔اس میں تم آزاد ہوگے۔تمہیں پیشے کی آزادی  ہوگی۔تمہیں انصاف ملے گا ،اسلام کی حکمرانی ہوگی۔عقیدے کی آزادی ہوگی ۔ حقدار کو حق ملے گا۔اب فرات کے کنارے کوئی کتا بھوکا نہیں مرے گا۔مستقبل کے سبز باغوں کی ایسی سرزمین  میں کون کافر آنے سے انکار کرتا۔چل  چلاچل اس اپنے گھر کی جانب۔چل اسلام کے قلعے کی جانب۔چھوڑ گھر بار،چھوڑ زمینین مکان جائیداد،چل دیا میرا قبیلہ چل دیا۔ابھی چلا بھی نہیں تھا کہ ادھرتھوہا خالصہ میں سنت گلاب سنگھ کی حویلی  میں مسلمانوں کے حملے کے خوف سے جمع ہونے والے سکھوں پر  ایمان والوں نے قیامت ڈھادی۔ حملہ کیا پوری حویلی لوٹ لی۔قتل غارتگری کی  ابتداء اور انتہا کردی۔ سکھوں نے اپنی بہنوں ماؤں  بیٹیوں کو ان ایمان والوں کےہاتھوں لونڈیاں   بن جانے کے خوف  سے قتل کیا ۔کچھ کنویں میں کود کود کے مر گئیں۔  جو کشت خون یہاں کیا گیا اس نے بٹوارے میں فسادات کا راستہ کھول دیا۔ان ایمان والے غازیوں نےیہ نہ سوچا کہ اُدھر بھی مسلمان بستے ہیں جن کوابھی آنا ہے۔امرتسر پر ایک ٹرین کو سکھوں نے زبردستی روکا ۔انہیں لاہور سے آنے والی سکھوں کی ٹرین کا انتظا ر تھا کہ وہ صحیح سالم آتی ہے یا اس پر حملہ ہوتا ہے۔ سٹیشن کے گرد  دور  دور تک ہزاروں غضبناک سکھ تلواریں کرپانیں بلّم لئے کھڑے تھے ۔ اندرمہاجروں کا خون خشک ہو رہا تھا۔ اگر آنے والی ٹرین صحیح سالم آتی ہے تو یہ ٹرین جائے گی ورنہ  اس ٹرین کا بھی وہی حشر ہوگا جو سکھوں کی ٹرین کا ہوا ہوگا۔ادھر سکھوں کی لاشوں اور زخمیوں سے بھری ٹرین  سٹیشن میں داخل ہوئی اور ادھر یہ ہزاروں ٹرین پر پل پڑے۔ہزاروں داستانیں ہر آنے والے کے خاندان میں بکھری پڑی ہیں ۔اب تو عینی شاہدین اور مفعول خال خال ہی زندہ ہیں۔اس نسل کے معدوم ہونے پر یہ سب واقعات کسی طلسمی کہانیوں کا مجموعہ معلوم ہونگے۔
ان حالات میں آنے والے میرے قبیلے کو اب یہاں نئے ناموں سے شناخت ملی۔اس کو فرزند  زمین والوں نے کہیں پناہ گیر کہا،کہیں مکڑ کہا کہیں مٹروے کہا گیا  کہیں بھئیے کہا بہت عزت دی تو مہاجر کہہ دیا۔فرزند زمین کے ٹائٹل سے ابھی تک محروم ہیں ۔ ۔ اس   مکس قبیلہ  نے  اپنی لیاقت اور ہنر مندی سےلیاری جیسی بستی کو کراچی جیسے  تمدن یافتہ شہر میں تبدیل کیا۔مہاجر دشمن ایوب خان نے   راجدھانی یہاں سے اٹھا کر  اپنے گھر منتقل  کر دی  تاکہ یہ اس کے ثمرات سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے۔  سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنے کے لئے ڈومیسائل کوٹہ اور نمعلوم کن کن  ہتھکنڈوں کا سہارا لیا گیا ۔ پاکستان کی ستر سے اسی فیصد آمدنی  دینے والے شہر کو اس طرح سے ترسایا ہوا ہے کہ اگر شہری حکومت ان کی ہو تو اس پر سارا کنٹرول غیر شہریوں کا ہو۔   کراچی میں پولیس پنجاب اور سرحد کی ہو،کراچی کی میڈیکل کی طالبات کو کراچی میں نہیں نوابشاہ میں داخلہ دیا جائے۔
جب میرا ملک تھا میری شناخت تھی۔افغانستان سے لے کر بنگال تک جب کہتا کہ میں فریدخان غوری حاکم افغانہ کے خاندان کا فرد ہوں تو کسی کی مجال نہ تھی کہ مجھے کسی چیک پوسٹ پر روک کو ئی پچاس روپے مانگتا۔آج جب میرا قبیلہ گم ہوگیا تو کراچی سے شاہ نورانی جاتے میں اگر میں نمبر کے نام پر پیسے نہ دوں تو مجھے کیا کیا سننا پڑتا ہے؟ ایک جھلک دکھاتا ہوں۔
میں ہائی روف پر آر سی ڈی ہائی وے پرجا رہا تھا۔رات کا وقت تھا۔گڈانی کے قریب ایک پولیس موبائل نے روکا۔ میں نے حسب معمول پچاس روپے نکال کر دئے تو اس نے انتہائی بدتمیزی سے کہا کہ دو سو روپے دے۔ میں نے کہا کہ پچاس ہوتے ہیں تو میرا جملہ کاٹ کر کہا  دیتا ہے یا لے جا کر بند کروں۔ گالی دے کر کہا کہ  بند کردونگا تو منتیں کرکے پیر پکڑ کر تو دو ہزار بھی دےگا۔سالا آگیا ہے مکڑ ہم کو قانون سکھانے۔ابے  یہ ہمارا بلوچستان ہے شکر کرتیرے کو یہاں آنے دے رہےہیں۔دو سو دے کر جان چھڑائی آخر اس کا بلوچستان ہے۔ نہ اسے میرے سفید بالوں کی شرم، نہ چھوٹے بڑے کا ادب ۔ایک چپڑاسی گریڈکا  کانسٹیبل ایک اٹھارہ گریڈ کے  ریٹائرڈ    ہیڈماسٹر کے ساتھ یہ رویہ رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فرزند زمین ہے اپنے وطن میں ہے  اور اِس بیچارے بے وطن کی زمین سبز باغات کی نظر ہو گئی۔
بہر حال میرے قبیلے کو یہاں کون جانتا ہے۔  سب اپنے قبیلے کو جانتے ہیں۔ میں جب کسی بھی لاسی،جاموٹ،باریچہ،مینگل کے ساتھ ان علاقوں میں جاتا ہوں تو بس ان کا اپنا تعارف کرانا ہی کافی ہوتا ہے۔یہ بتانا کہ میں جاموٹ ہوں اور منگھوپیر میں بیٹھا ہوں تو سارے  گناہ معاف بلکہ کہتے ہیں کہ بیٹھو چائے  منگاتا ہوں۔
میرا قبیلہ کہاں گیا۔
کاش؛  لیکن کیا کاش کاش لگائی ہے تو نے اے بے نام و نشاں والے۔ تو جاموٹ نہیں ،تو سولنگی نہیں،تو باریچہ نہیں،تو خاصیلی نہیں ،مینگل نہیں ، سردار نہیں،چوہدری نہیں،خان نہیں ،وڈ یرہ نہیں تیری اوقات کیا ہے؟اوقات شرفاء کی ہوتی ہے۔جن کی جاگیر ہوتی ہے،حسب نسب ہوتا ہے،جن کے گھروں میں ان کے پرکھوں کی تلواریں لٹکی ہوتی ہیں۔جن کے پاس انگریز کی دی ہوئی جاگیروں کے پروانے ہوتے ہیں ۔جن کی طاقت ہوتی ہے۔جو  نواب پور میں کمیوں کی عورتوں کو برہنہ کر کے گھما سکتے ہیں۔
میرا قبیلہ کہاں گیا۔مت کر تلاش اس قبیلے کی۔تو پارٹیشن کی قربانی کا بکرا ہے۔اس وقت بھی قربانی دی اوراب بھی دے۔

ذبح ہوجا یونہی تو اے بکرے
            کیا لگائی ہے تو نے بک بک رے

Thursday, May 5, 2016

غاروں کا شہر


بلوچستان میں بیلہ کے علاقے میں ایک پہاڑی ندی کے دونوں جانب کے پہاڑوں میں ایسے گھر پائے جاتے ہیں جن کو پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ یہ گھر اب ویران ہیں،ان میں آبادی نہیں ہے ۔انٹرنیٹ پر ان کے بارے میں مکھی پر مکھی ماری ہوئی ہے۔سب سے پہلے تو نام کی غلط فہمی ان غاروں تک ایک عام آدمی کو پہنچا ہی نہیں سکتی۔ گوندرانی، شہر غورغاں ,پرانے غاروں کا شہر، Baluchistan cave city حب سے لے کر بیلہ تک آپ انٹر نیٹ کے یہ نام لے لے کرتھک جائیں گے لیکن کوئی بھی اس نام سے ان کا پتہ نہیں جانتا۔حد تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھا انہیں بھی ان ناموں سے کوئی واقفیت نہیں۔ایک ڈاکٹر صاحب سے بھی مایوسی ہوئی۔ایک جگہ نیٹ کے سگنل آگئے تو تصویر دکھا کر پوچھا تو پتہ چلا کہ اس جگہ کو مائی پیر سے کہتے ہیں اور ایک جگہ جب مائی پر کا بورڈ پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ لفظ ماہی پیر ہے۔ماہی پیر کو سب جانتے ہیں۔