Saturday, May 7, 2016

کہاں گیا میرا قبیلہ


کہتے ہیں وہ سات بھائی تھے۔ساری ریاست پر ان کی دھاک تھی۔ان کی ملا جلا کر کوئی ساٹھ اولادیں تھی۔ اس دور میں نرینہ  اولاد ہی صرف اولاد کہلاتی تھی۔ ایک سے ایک جنگجوبہادر اورتلوار کا ماہر ۔پھر ان کی اولادیں لازمی سینکڑوں میں ہونگی ۔ ہر بااثر کو انگریز  نے اپنی چمچہ گیری کا شرف بخشا۔ کسی کو نواب  کسی کو ہزاری کسی کو دس ہزاری کسی کو درباری کسی کو لاٹ صاحب کسی کو سر،کسی کو شمس العلماء بنایا۔ یہ سارے بھی ایسے ہی نوازے گئے ہونگے۔جیسا کہ بزرگ بتاتے ہیں اور شجرہ بتاتا ہے ہمارے بڑے، بڑے لوگ تھے۔ ہونگے۔ تمام چمچے بڑے ہی ہوتے تھے ہوتے ہیں اور  مستقبل میں بھی ہونگے۔ جس کو انگریز نے چوم لیا وہی راجہ۔جس پر صاحب مہربان اس پر آسماں مہربان۔نیچے والے کمی کمہار،بوچڑ قصائی، کسب گر اور خدمت گزار بہت عزت دو تواس   دور کے عوام ۔
            کہتے ہیں 1857 میں انہوں نے بادشاہ کا ساتھ دیا  ۔کچھ جنرل بخت کے ساتھ چلے گئے۔ اگر یہ غدر تھا تو انہوں نے غلطی کی۔اگر جنگ آزادی تھی تو صحیح کیا۔  ۔غلطی کی قیمت چکانی پڑتی ہے،خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔اس سے زیادہ غیرت و حمیت کے عمل کا تاوان دینا پڑتا ہے۔ بادشاہ کی شکست۔ پکڑ دھکڑ ۔ پھانسیاں تاریخ کا حصہ ہے۔
 سب بھاگے کوئی یہاں چھپا کوئی وہاں چھپا۔کسی نے نام بدل لیا ۔کسی نے ذات بدل لی۔کسی نے پیشہ بدل لیا۔جس کے جہاں سینگ سمائے وہاں  چل دیا۔کوئی الور کی ریاست میں جا چھپا۔ کسی نے کرنال کی ریاست میں میں پناہ لی۔کوئی رہتک،حصار،جھجھر،گڑگاؤں گیا۔کوئی بھوپال میں پناہ گزیں ہوا۔کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔کچھ دہلی میں جا پڑے۔شیرازہ  بکھر گیا۔اپنی ریاست اپنی بادشاہت اپنی فرعونیت اپنا نام اپنی ذات اپنا پیشہ سپاہ گیری،جاگیرداری چھوڑی اور روپوش ہوگئے ۔ کسی کو کسی کاہوش نہیں۔ کون کہاں گیا کس کس کو  انگریز سرکار نے پھانسی چڑھا دیا؟کون جانے۔اپنی جان بچانا ہی اولین ترجیح تھی۔اپنی ذات کا نام لینا بھی جرم تھا۔
ایک تھے غلام محمد غوری جو خان غلام علی خان گل غوری کے بیٹے اورحبیب الدین غوری قلعہ داررہتاس کے پوتے تھے۔ان کے علم میں تھا کہ کون کہا گیا۔ انہوں نے ہی لوگوں کو جانے کے مشورے دئیے۔چھپنے ،بھیس بدلنے،پیشے اور نام ذات تبدیل کرنے کے مشورے دے کر روانہ کیا۔ انہوں نے آخر وقت تک رہتاس  کو نہ چھوڑا۔قبیلے کے پنچ جو تھے۔  قید ہوکر دہلی آئے۔  اس کے بعد سے آج تک ان کی کوئی خبر نہیں۔خیال ہے کہ انگریز نے دور ان تفتیش مار ڈالا۔یوں سارا قبیلہ بکھر گیا۔ایک دوسرے سےکیسے تعلق ہو ،کس کو کس سے پوچھا جائے۔ایسے بکھرے کہ زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لئے مر گئے۔
اس  زمانے میں کیسے پوچھیں کہ کرنال میں غوری آئے تھے وہ کہاں ہیں۔الور میں رہتاس کے قلعہ داروں کا خاندان آیا تھا  ،کہاں گیا ۔خودکوچھپائیں گے تو کون کسے جانے گا۔انگریز سرکار نے تو ہر غوری کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھانسی دینی تھی۔ ہندو مخبر انعام کے لالچ میں ٹوہ لیتے پھرتے تھے۔ میرا قبیلہ  کہیں خلجی کہیں انصاری  اور کہیں چمار بنا ہوا تھا اور دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پی رہا تھا۔ خوف سے کوئی بتاتا ہی نہ تھا کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔منشی  چراغ دین غوری کی اولاد لوہار بن گئی اب کون جانے کہ کیا غوریوں میں کبھی لوہار بھی ہوئے۔کوئی کارپینٹر کوئی سنار بن گیا۔کوئی چرواہا بن گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ غوری قبیلہ حکمرانی اور قلعہ داری سے نچلے پیشوں میں آ گیا۔مفلسی،تہی دامنی اور دیار غیر کی مشکلات جس پربیتی ہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔کہیں جولاہے بن کر انصاری ہو گئے۔اصلیت چھپاتے چھپاتے اصلیت کو بھول ہی گئے۔ اس چھپن چھپاِِئی کی آدھی صدی  میں گمنام   ہوگئے۔مفلس طبقے کی تمام برائیاں آنا قدرتی بات تھی۔مفلسی پیٹ کو دیکھتی ہے چادر کو نہیں۔
اسی طرح سو سال گزر گئے اور بٹوارے نے رہی سہی امیدیں بھی کبھی قبیلے کے ایک ہونے کی ختم کر دیں۔قبیلہ کہاں گیا؟کوئی نہیں جانتا۔ کیسے کیسےنامی گرامی  فاتحین اور بہادر جن پر قبیلے کو ناز تھا، جن کی   شجاعت کی داستانیں افغانستان سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی  ہیں،جن کے نام سے پرتھوی راج کی نسلیں آج تک خوف کھاتی ہیں، ان کی ہڈیوں تک کا پتہ نہیں۔کس کس کو کہاں دفنا آئے، کس کی لاش کو بے گورو کفن چیل کوے کھا گئے۔جن بیبیوں کی کپڑوں کی خریداری محلو ں اور حویلیوں میں مغلانیوں کے ذریعے  ہوتی تھی وہ بے پردہ جان بچانے کو بھاگتی پھرتی تھیں ۔ان  کی لاشیں نمعلوم کون کون سے  کنووں میں پڑی پڑی گل سڑگئیں۔ نجانے  کس کس کے مزاروں پر ٹریکٹر چل گیا کون جانے۔سو سال کی  بے نامی جلاوطنی،بن باس،غریب الوطنی کے مزار پر آخر کار پاکستان بن گیا۔جو بچی کھچی قبریں تھیں انہیں بھی چھوڑ آئے۔
بتایا گیا کہ  یہ تمہارا گھر ہے۔اس میں تم آزاد ہوگے۔تمہیں پیشے کی آزادی  ہوگی۔تمہیں انصاف ملے گا ،اسلام کی حکمرانی ہوگی۔عقیدے کی آزادی ہوگی ۔ حقدار کو حق ملے گا۔اب فرات کے کنارے کوئی کتا بھوکا نہیں مرے گا۔مستقبل کے سبز باغوں کی ایسی سرزمین  میں کون کافر آنے سے انکار کرتا۔چل  چلاچل اس اپنے گھر کی جانب۔چل اسلام کے قلعے کی جانب۔چھوڑ گھر بار،چھوڑ زمینین مکان جائیداد،چل دیا میرا قبیلہ چل دیا۔ابھی چلا بھی نہیں تھا کہ ادھرتھوہا خالصہ میں سنت گلاب سنگھ کی حویلی  میں مسلمانوں کے حملے کے خوف سے جمع ہونے والے سکھوں پر  ایمان والوں نے قیامت ڈھادی۔ حملہ کیا پوری حویلی لوٹ لی۔قتل غارتگری کی  ابتداء اور انتہا کردی۔ سکھوں نے اپنی بہنوں ماؤں  بیٹیوں کو ان ایمان والوں کےہاتھوں لونڈیاں   بن جانے کے خوف  سے قتل کیا ۔کچھ کنویں میں کود کود کے مر گئیں۔  جو کشت خون یہاں کیا گیا اس نے بٹوارے میں فسادات کا راستہ کھول دیا۔ان ایمان والے غازیوں نےیہ نہ سوچا کہ اُدھر بھی مسلمان بستے ہیں جن کوابھی آنا ہے۔امرتسر پر ایک ٹرین کو سکھوں نے زبردستی روکا ۔انہیں لاہور سے آنے والی سکھوں کی ٹرین کا انتظا ر تھا کہ وہ صحیح سالم آتی ہے یا اس پر حملہ ہوتا ہے۔ سٹیشن کے گرد  دور  دور تک ہزاروں غضبناک سکھ تلواریں کرپانیں بلّم لئے کھڑے تھے ۔ اندرمہاجروں کا خون خشک ہو رہا تھا۔ اگر آنے والی ٹرین صحیح سالم آتی ہے تو یہ ٹرین جائے گی ورنہ  اس ٹرین کا بھی وہی حشر ہوگا جو سکھوں کی ٹرین کا ہوا ہوگا۔ادھر سکھوں کی لاشوں اور زخمیوں سے بھری ٹرین  سٹیشن میں داخل ہوئی اور ادھر یہ ہزاروں ٹرین پر پل پڑے۔ہزاروں داستانیں ہر آنے والے کے خاندان میں بکھری پڑی ہیں ۔اب تو عینی شاہدین اور مفعول خال خال ہی زندہ ہیں۔اس نسل کے معدوم ہونے پر یہ سب واقعات کسی طلسمی کہانیوں کا مجموعہ معلوم ہونگے۔
ان حالات میں آنے والے میرے قبیلے کو اب یہاں نئے ناموں سے شناخت ملی۔اس کو فرزند  زمین والوں نے کہیں پناہ گیر کہا،کہیں مکڑ کہا کہیں مٹروے کہا گیا  کہیں بھئیے کہا بہت عزت دی تو مہاجر کہہ دیا۔فرزند زمین کے ٹائٹل سے ابھی تک محروم ہیں ۔ ۔ اس   مکس قبیلہ  نے  اپنی لیاقت اور ہنر مندی سےلیاری جیسی بستی کو کراچی جیسے  تمدن یافتہ شہر میں تبدیل کیا۔مہاجر دشمن ایوب خان نے   راجدھانی یہاں سے اٹھا کر  اپنے گھر منتقل  کر دی  تاکہ یہ اس کے ثمرات سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے۔  سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنے کے لئے ڈومیسائل کوٹہ اور نمعلوم کن کن  ہتھکنڈوں کا سہارا لیا گیا ۔ پاکستان کی ستر سے اسی فیصد آمدنی  دینے والے شہر کو اس طرح سے ترسایا ہوا ہے کہ اگر شہری حکومت ان کی ہو تو اس پر سارا کنٹرول غیر شہریوں کا ہو۔   کراچی میں پولیس پنجاب اور سرحد کی ہو،کراچی کی میڈیکل کی طالبات کو کراچی میں نہیں نوابشاہ میں داخلہ دیا جائے۔
جب میرا ملک تھا میری شناخت تھی۔افغانستان سے لے کر بنگال تک جب کہتا کہ میں فریدخان غوری حاکم افغانہ کے خاندان کا فرد ہوں تو کسی کی مجال نہ تھی کہ مجھے کسی چیک پوسٹ پر روک کو ئی پچاس روپے مانگتا۔آج جب میرا قبیلہ گم ہوگیا تو کراچی سے شاہ نورانی جاتے میں اگر میں نمبر کے نام پر پیسے نہ دوں تو مجھے کیا کیا سننا پڑتا ہے؟ ایک جھلک دکھاتا ہوں۔
میں ہائی روف پر آر سی ڈی ہائی وے پرجا رہا تھا۔رات کا وقت تھا۔گڈانی کے قریب ایک پولیس موبائل نے روکا۔ میں نے حسب معمول پچاس روپے نکال کر دئے تو اس نے انتہائی بدتمیزی سے کہا کہ دو سو روپے دے۔ میں نے کہا کہ پچاس ہوتے ہیں تو میرا جملہ کاٹ کر کہا  دیتا ہے یا لے جا کر بند کروں۔ گالی دے کر کہا کہ  بند کردونگا تو منتیں کرکے پیر پکڑ کر تو دو ہزار بھی دےگا۔سالا آگیا ہے مکڑ ہم کو قانون سکھانے۔ابے  یہ ہمارا بلوچستان ہے شکر کرتیرے کو یہاں آنے دے رہےہیں۔دو سو دے کر جان چھڑائی آخر اس کا بلوچستان ہے۔ نہ اسے میرے سفید بالوں کی شرم، نہ چھوٹے بڑے کا ادب ۔ایک چپڑاسی گریڈکا  کانسٹیبل ایک اٹھارہ گریڈ کے  ریٹائرڈ    ہیڈماسٹر کے ساتھ یہ رویہ رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فرزند زمین ہے اپنے وطن میں ہے  اور اِس بیچارے بے وطن کی زمین سبز باغات کی نظر ہو گئی۔
بہر حال میرے قبیلے کو یہاں کون جانتا ہے۔  سب اپنے قبیلے کو جانتے ہیں۔ میں جب کسی بھی لاسی،جاموٹ،باریچہ،مینگل کے ساتھ ان علاقوں میں جاتا ہوں تو بس ان کا اپنا تعارف کرانا ہی کافی ہوتا ہے۔یہ بتانا کہ میں جاموٹ ہوں اور منگھوپیر میں بیٹھا ہوں تو سارے  گناہ معاف بلکہ کہتے ہیں کہ بیٹھو چائے  منگاتا ہوں۔
میرا قبیلہ کہاں گیا۔
کاش؛  لیکن کیا کاش کاش لگائی ہے تو نے اے بے نام و نشاں والے۔ تو جاموٹ نہیں ،تو سولنگی نہیں،تو باریچہ نہیں،تو خاصیلی نہیں ،مینگل نہیں ، سردار نہیں،چوہدری نہیں،خان نہیں ،وڈ یرہ نہیں تیری اوقات کیا ہے؟اوقات شرفاء کی ہوتی ہے۔جن کی جاگیر ہوتی ہے،حسب نسب ہوتا ہے،جن کے گھروں میں ان کے پرکھوں کی تلواریں لٹکی ہوتی ہیں۔جن کے پاس انگریز کی دی ہوئی جاگیروں کے پروانے ہوتے ہیں ۔جن کی طاقت ہوتی ہے۔جو  نواب پور میں کمیوں کی عورتوں کو برہنہ کر کے گھما سکتے ہیں۔
میرا قبیلہ کہاں گیا۔مت کر تلاش اس قبیلے کی۔تو پارٹیشن کی قربانی کا بکرا ہے۔اس وقت بھی قربانی دی اوراب بھی دے۔

ذبح ہوجا یونہی تو اے بکرے
            کیا لگائی ہے تو نے بک بک رے

Thursday, May 5, 2016

غاروں کا شہر


بلوچستان میں بیلہ کے علاقے میں ایک پہاڑی ندی کے دونوں جانب کے پہاڑوں میں ایسے گھر پائے جاتے ہیں جن کو پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ یہ گھر اب ویران ہیں،ان میں آبادی نہیں ہے ۔انٹرنیٹ پر ان کے بارے میں مکھی پر مکھی ماری ہوئی ہے۔سب سے پہلے تو نام کی غلط فہمی ان غاروں تک ایک عام آدمی کو پہنچا ہی نہیں سکتی۔ گوندرانی، شہر غورغاں ,پرانے غاروں کا شہر، Baluchistan cave city حب سے لے کر بیلہ تک آپ انٹر نیٹ کے یہ نام لے لے کرتھک جائیں گے لیکن کوئی بھی اس نام سے ان کا پتہ نہیں جانتا۔حد تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھا انہیں بھی ان ناموں سے کوئی واقفیت نہیں۔ایک ڈاکٹر صاحب سے بھی مایوسی ہوئی۔ایک جگہ نیٹ کے سگنل آگئے تو تصویر دکھا کر پوچھا تو پتہ چلا کہ اس جگہ کو مائی پیر سے کہتے ہیں اور ایک جگہ جب مائی پر کا بورڈ پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ لفظ ماہی پیر ہے۔ماہی پیر کو سب جانتے ہیں۔