Monday, March 26, 2018

ہالیجی جھیل اور ایرانی طلباء


ہالیجی جھیل اور ایرانی طلباء
رانا عثمان صاحب نےراکاپوشی ٹریک پر دو سیّاحوں کی انڈوں اور چائے سے خدمت کرنے پر ایک سند قبولیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے حاصل کی۔ جس کی بے حد خوشی ہے۔اس پر اس بندہ بشر کو بھی ایک چالیس سال پرانی آپ بیتی یاد آگئی جو آپ لوگوں سے بانٹنا چاہوں گا۔یہ سن 1975 کی بات ہے کہ محلّے کے پانچ آوارہ سے دوستوں کے ساتھ  ہالیجی جھیل جانے کا پروگرام بنا۔ اس وقت ان میں یہ بندہ ہی ایک سینئر تھا 28 برس کا باقی سب چھوٹے یعنی ٹین ایج کے تھے۔ایک تھے ان میں اسلم باورچی۔ انہوں نے ہالے جی جانے کے لئے جن لوگوں کا بھی کھانا اس دن پکایاتھا اس میں سے شیر مال اور قورمہ ماردیا اور ہمارے مزے آگئے۔اس کھانے کو ایک پتیلے میں رکھ کر کپڑے سے باندھ دیا۔بس نمبر ون ڈی میں اورنگی سے تین ہٹی  جانے کے لئے یہ کھانا بس کے اندر فرش پر رکھ دیا۔ ایک صاحب نے اس کو پیر سے پیچھے کو کر دیا۔اسلم نے کہا کیا کرتے ہو بھائی اس میں کھانا ہے۔ اس پر انہوں نے ایک اور لات کھانے کو ماری اور کہا کہ اسے  راستے سے ادھر کرونا۔اسلم کا پارہ چڑھ گیا اس نے ان صاحب کو دو چار زور دار قسم کے جھانپڑ رکھ دئیے۔ وہ  پِٹ کر آگے بڑھے اور لگے اول فول بکنے اسلم کو۔ وہاں ہمارے جناب کمال صاحب  کھڑے تھے دو انہوں نے رسید کر دئیے ۔ وہ بک بک کرتے اور آگے آگئے ۔دیکھئے بڑوں کی کوئی عزت نہیں،سالے ٹکے ٹکے کے چھوکرے  ہیں بس میں بدمعاشی مچا رہے ہیں اور کوئی پوچھنےوالا نہیں ۔میں یوں کر دونگا  ووں کر دونگا لالو کھیت آنے دو۔ اب وہ  کمال سے آگے آچکے تھے اور ان کی زبان تمام حدود پار کر رہی تھی۔اتنے میں جمال صاحب کا ایک زور دار دھماکے دار تھپڑ پڑا ساتھ میں آواز ائی کہ چپ ہوتا ہے یا نہیں ۔اور آگے آئے تو محفوظ بھائی نے بھی دو ہاتھ رکھ دئے کہا کہ اسلم چھرا نکال کے لا ۔ وہ سب سے پٹتے بچتے خواتین کے حصے کے دروازے کے پاس جہاں میں کھڑا تھا تشریف لے آئے۔مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے دیکھا آپ نے۔میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کی ابھی تسلی نہیں ہوئی۔خاموشی اچھی چیز ہے۔اب چپ ہو جائیے میں بھی ان کا ساتھی ہوں۔ایسا نہ ہو کہ مجھے بھی کوئی ایکشن لینا پڑے۔  بیچارے لاھول ولا پڑھتے ہوئے  خواتین کے دروازے سے نیچے اتر گئے۔
                ہالے جی میں جاتے ہی مچھلی لگنی شروع ہو گئی۔ ایک پاؤ سے ڈیڑھ کلو تک کی سول مچھلی لگ رہی تھی۔سب نے جی بھر کر ماری۔شام ہو گئی۔ہمیں وہاں رات گزارنی تھی۔شام ہوئی۔اب مچھلی کا کیا کریں۔کمال سب سے چرب زبان تھا۔ ایک بوری پر ساری رکھ کر سجا کر اسے فروخت کرنے کا کام دےدیا۔ اس نے دو مچھلیاں تین ر وپے کی بیچ دیں،پھر پانچ کے تین روپے۔کوئی ایک ہی تین روپے کی۔ عرف عام میں جیسا منہ ویسا تھپڑ ۔جیسا گاہک دیکھا بس بیچ دیں جان چھڑانی تھی۔ غرض آدھی مچھلیاں بک گئیں۔ابھی بھی بیس کلو  کے قریب باقی تھیں۔میرے مشورے پر ان کو تل کر رکھنا بہتر تھا ورنہ خراب ہو جاتیں۔صفائی کی،کڑھائی چولہے پر  چڑھائی اور عمر مرحوم نے تلنا شروع کیا۔دو پرانی پیٹیوں پر اخبار بچھا کر مچھلیاں تل کر رکھنی شروع کیں گرم گرم تھی کھاتے بھی گئے۔ بہت دلنشیں بلکہ ناک نشیں خوشبو دور دور تک پھیل رہی تھی۔
                اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت تھی اور سعودیہ کےشاہ فیصل،ایران کے شہنشاہ آریہ مہر،کیوبا کے کاسترو، یوگنڈا کے عیدی امین،مصر کے جمال ناصر ،لیبیا کے معمر قذافی انڈونیشیا کے سوئیکارنو ہمارے  گہرے اور سچےدوست تھے ۔ ایران سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے ۔بھٹو صاحب ایران کے داماد تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں ایرانی طالبعلموں کی بڑی تعداد  زیرتعلیم تھی۔ایک بس ایرانی طالبعلموں کی خوشبو سونگھ کر رک گئی۔ تازہ مچھلی کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔مجھ سے پوچھا کہ بیچتے ہو۔ میں نے کہا کہ ہاں۔بھاؤ بتاؤ۔میں نے کہا کہ بہت سستی ہے خوب کھاؤ۔ کوئی پچاس طلباء تھے۔ وہ اپنی طرف سے شرارت کر کے کھا رہے تھے۔آپس میں باتیں کر رہےتھے کہ  کوئی تولنے کی چیز تو ہے نہیں۔وزن کم بتائیں گے اور کم پیسے دیں گے۔ فارسی زبان میں جو کچھ انہوں نے آپس میں کہا ان کی باڈی لینگویج اور لینگویج سے کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی۔میں نے انہیں اٹھا اٹھا کر گرم گرم مچھلی دی۔ سب کو کھلائی،خوب کھلائی۔ہمیں تو جان چھڑانی تھی۔ہم تو پہلے ہی کھا کھا کر تنگ آچکے  تھے۔لگ بھگ ساری مچھلی وہ کھا گئے۔ اب انہوں نے قیمت پوچھی۔اردو  وہ کم جانتے تھے۔ میں نے  انگریزی میں کہا کہ میں خود یونیورسٹی کا طالبعلم ہوں۔آپ لوگ میرے یونیورسٹی کے ساتھی ہیں۔ ہم لوگ دکاندار نہیں شکاری ہیں، عید کے موقع پر سیرو شکار پر آئے ہیں اور آپ ہمارے ایرانی بھائی ہیں۔ ہم پیسے نہیں لیں گے۔ اس پر وہ بہت ہی خوش ہوئے۔
                اب انہوں نےکیا کیا۔ایک پیٹی آم ،آدھی پیٹی انگور،کوئی تیس شیرمال،دس برگر اور نامعلوم کیا کیا بس سے اتار کر ہمیں دے گئے۔لاکھ منع کیا لیکن بس برادر برادر کر کے چلے گئے اس دور میں برگر کوئی عام کھانا نہ تھا ایسا تھا جیسے آج پیزا۔ برگر فیملی نام اسی لئے ہے کہ پہلے عام آدمی کی پہنچ سے برگر باہر تھا۔پہلے تو ہم مچھلی سے تنگ تھے۔اب ان چیزوں سے تنگ ہو گئے۔دن بھر سے کھا کھا کر پہلے ہی پیٹ بھرے تھے اور کیا کھاتے۔کچھ کل کے لئے رکھ کر باقی مقامی بچوں میں بانٹ کر جان چھڑائی۔رات تاش کھیل کر اور شمشاد بیگم کے گانے سن کر کچھ سو کر گزاری۔ پروگرام یہ ہوا کہ صبح سویرے شکار کریں گے دو یا تین گھنٹے اور گھر کے لئے تھوڑی تھوڑی  مچھلی مار کر جلدی نکل جائیں گے۔لیکن لگتا ہے  لالو کھیت کےپٹے ہوئے مسافر کی بددعا لگ گئی۔وہی پانی، وہی ہوا، وہی چارہ،وہی گھاٹ ،وہی بادل وہی ہم اور وہی ڈور کانٹےبہ زبانِ شاعر، عہ،
ہے یہ وہی آسماں اور ہے وہی زمیں ۔پر میری تقدیر کا یہ وہ زمانہ نہیں
۔ شام ہو گئی۔ایک مچھلی نہ لگ کر دی۔دوپہر کو بخشش کا دیا ہواکھانا کھایا اور لوٹ کے بدھو ، پانچ میل پیدل پھر بس ،گھر کو آئے۔
                عمرصاحب کا دس سال پہلے انتقال ہو چکا،جمال صاحب ہیروئن  پی  پی کرمر گئے،اسلم کا اپنا پکوان سنٹر ہے جسے بچے چلاتے ہیں وہ اپنے ڈیڑھ سو کلو وزن سے پریشان ہیں گھر کو ہسپتال بنایا ہوا ہے ۔محفوظ صاحب  مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔کمال صاحب بزنس میں ایسے مصروف ہیں کہ ماربل کی مائنز سے بمشکل وقت نکال کر بچوں سے ملنے آتے ہیں۔کراچی یونیورسٹی میں اب کوئی ایرانی طالبعلم نہیں ۔ہالے جی جھیل ڈاکوؤں کا گڑھ بن چکی۔ جھیل میں سول مچھلی تو کجا اب مینڈک بھی نہیں پائے جاتے۔بندہ اُس وقت پانچ میل  پیدل چل کر مین روڈ سے اندر ہالے جی جاتا تھا اب پیدل باتھ روم کے علاوہ کہیں نہیں جاتا۔
                آہ کیا لاپرواہی اور فرصت کے دن تھے جو ہوا ہو گئے۔
شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے ایک تحریر


چڑیل کی بیٹی


چڑیل کی بیٹی
گھرمیں تیاری ہو رہی تھی کہ میرے ابّا آرہے ہیں۔انکے لئےنئی چارپائی اور بستر تیار کیاگیا۔ولایت سے چار سال بعد آرہے تھے  ۔میں اس وقت پانچ سال کا ہونگا ۔آخر کار دوپہر کو دادا جاکر انہیں لے آئے۔ابا کے ساتھ ایک لڑکی تھی ۔سنہرے بالوں والی اور نیلی آنکھوں والی۔گھر میں میرے علاوہ کوئی بچہ نہ تھا ۔ ابا نے کہا کہ بیٹا یہ تمہاری بہن ہے۔اسے انگریزی میں بتایا کہ یہ تمہارا بھائی ہے۔وہ میری ہم عمر ہی تھی یا کچھ بڑی تھی۔وہ برادر برادر کہہ کر  مجھے پیار کرنے  لگی ۔ ہم کھانا کھا کر شام تک اکٹھے کھیلتے رہے۔ اس نے مجھے ایک تصویروں والی بہت اچھی گتے نما صفحوں والی  کتاب تحفے میں دی۔ اسے اردو اور مجھے انگریزی نہیں آتی تھی۔لیکن آپس میں ہم کئی گھنٹےبات کرتے رہے۔ اس نے مجھے اپنا ایک فوٹو بھی دیاجو اس  نے اپنے  ا سکول کے لئے کھنچوایا تھا۔اس میں وہ  بالکل پری لگ رہی تھی۔
رات کے کھانے کے بعد امی اور ابو میں لڑائی ہوتی رہی۔ہوتی ہی رہی جب تک ہم دونوں سو نہ گئے ہمیں ان کے لڑنےکی آوازیں  آتی ہی رہیں۔جب میں صبح اٹھا تو ابو اور  میری بہن گھر میں موجود نہیں تھے۔میں نے امی سے پوچھا کہ ابو کہاں گئے۔انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔میں نے کہا کہ انہوں نے سائیکل دلانے کا وعدہ کیا تھا لینے گئے ہونگے۔میرے بستر پر وہ کتاب رکھی تھی اور اس میں وہ تصویر۔میں  تصویر نکال کر دیکھنے لگا اور امی سے پوچھا کہ امی یہ کون ہے اتنے پیارے سنہری بالوں والی لڑکی؟ امی نے وہ تصویر  میرے ہاتھ سے لی اور کہا کہ یہ چڑیل کی  لڑکی ہے۔ چڑیل ہے  دور کرو اسے یہ تمہیں کھاجائے گی۔تصویر کے چار ٹکڑے کئے اورز مین پر پھینک دئے۔میں نے انہیں اٹھایا اور  اس کتاب میں رکھ کر اسکول چلا گیا۔
واپس آکر اس کتاب میں سے تصویر کے ٹکڑ ےنکال کر   جوڑا اور اسے کتاب میں رکھ کر کتاب چھپا دی کہ کہیں امی کی نظر نہ پڑ جائے۔کچھ دنوں بعد  ایک آدمی ایک بہترین چمکدار سائیکل لے کر آیا اور دادا جان سے میرا نام پوچھ کر  دادا جان کے دستخط لے کر سائیکل مجھے دے کر چلا گیا۔ابا جان نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔دادا دنیا چھوڑ گئے۔ابا جان نہ آئے۔ امی کے آگے تو ابا کا نام لینا قیامت تھا۔دادا بتاتے تھے کہ میرےابا نے ولایت میں شادی کی ہوئی تھی لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی اور یہاں شادی کر دی۔دادا کے بعد مجھے ابا جان کے بارےمیں بات کرنے کے لئے کوئی میسر نہ تھا۔امی نے میرے اسکول میں میرے باپ کے نام کے خانے میں اپنے باپ یعنی میرے نانا کا نام لکھوا دیا تھا۔امی کے مرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں تو اپنے باپ کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں۔اتہ پتہ تو کیا ملے گا نام تک معلوم نہیں۔بہن کو میں ہمیشہ یاد کرتا رہا۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت کہ بھلا نہیں سکتا تھا۔
آج میری بیٹی نے اسٹور میں سے وہ کتاب نکال کر پوچھا پاپا اس اینیمل بک میں یہ کس کی تصویر ہے اتنی پیاری سنہرے بالوں والی لڑکی۔میں جواب تو کیا دیتا۔مجھے وہ دن اور وہ خوشگوار ماحول یاد آگیا ۔ اس کا وہ پیار،وہ تحفہ وہ فوٹو،وہ امی کا چڑیل کی بچی کہہ کر تصویر پھاڑ دینا۔۔وہ دن خوشگوار تھا یا منہوس کہ اس دن کے بعد نہ زندگی میں کبھی ابا جان نظر آئے اور نہ وہ سنہرے بالوں والی آپاجان۔کاش ایک بار تو مل لیتا۔ والد صاحب اور بہن سے بس وہ پہلی اور آخر ی  ملاقات تھی۔میں نے تصویر لے کر دیکھی لگتا تھا مجھے ہی دیکھ رہی ہے۔جیسے کہ رہی ہو بھائی ایسے ہوتے ہیں۔
بچپن کی پڑھی ہوئی ایک کہانی سے ماخوذ۔
شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے