Wednesday, May 9, 2018

آدھی صدی پہلےایک خطرناک ایڈونچر


آدھی صدی پہلے ایک خطرناک ایڈونچر
            کہہ سکتے ہیں کہ زمانہ قدیم کی بات ہے۔شائد آدھی صدی اس بات کو گزر گئی ہو گی جب ایوب خان کی حکومت ختم  ہونے والی تھی ملک میں ہڑتالوں احتجاج وغیرہ کی لہر تھی۔سٹار ٹیکسٹائل ملز بند تھی اور ورکرز نے باہر کا گیٹ بند کیا ہوا تھا۔ہم دو دن سے مزدوری کے لئے جارہے تھے اور واپس ناکام آرہے تھے۔قاسم بلوچ نام کا ایک جابر تھا جس کے بڑے بھائی سبزی منڈی میں سوزوکی چلاتے تھے۔اس دور میں یہ ایک اچھی گاڑی ہوتی تھی۔ان کے ہاں پانچ بیٹیوں کے بعد بیٹے نےجنم لیا۔ بڑی خوشیاں منائی گئیں۔جس مزار پر منت مانی تھی اس پر جاکر منت اتارنی تھی۔بلوچوں کے ہاں مزاروں پر بکرے کاٹنے کا رواج ہے ۔مزار بلوچستان میں کہیں واقع تھا۔کچھ چڑھاوا وغیرہ  چڑھانا تھا۔قاسم بلوچ نے مجھے بھی چلنے کی دعوت دے دی۔میرا مزاج تو ویسے ہی اباجان نے آوارہ بنایا تھا ، میں جانے کو دھم سے تیار ہو گیا۔ صبح سویرے  لیمارکیٹ پر جمع ہوئے،سوزوکی میں سو روپے کا پٹرول ڈالا جس سے ٹنکی فل ہو گئی۔اس وقت تک میں نے حب چوکی کا صرف نام ہی سنا تھا۔بلدیہ ٹاؤن میں کتے لوٹتے تھے یا مواچھ گوٹھ والے اس میں اپنے مرے ہوئے گدھے ڈال دیا کرتے تھے۔ مواچھ گوٹھ گدھوں کی افزائش کا علاقہ تھا۔جیسے زچہ بچہ کی اموات اس زمانے میں انسانوں میں زیادہ تھیں ویسے ہی  گدھیوں میں بھی زیادہ تھیں۔اس علاقے میں مردار خور گِدھوں کی تعداد بھی بہت تھی جو  دن رات زچّہ گدھیوں کی موت کی دعا کرتے ہونگے ۔ایک زچہ کے مرنے پر ان کا دو تین دن کا کھانا ہو جاتا تھا۔ ویسے بھی گِدھ دنیا کا صابر ترین جانور ہے۔ بلدیہ ٹا ؤن میں گدِھوں سے  لینڈ مافیا  زمین چھین رہی تھی جس پر وہ پشت ہا پشت سے آباد تھے۔آخر کار گِدھ انسان سے ہار گئے۔بلدیہ ٹاؤن کا ذکر یہاں اس لئے آگیا کہ آر سی ڈی ہائی وے  بن رہی تھی اور ہمیں بلدیہ ٹا ؤن کے کچے راستے سے جانا پڑا۔اس راستے پر پلاٹوں کی گھیرا گھاری کی بنا ء پر ٹیڑھے میڑھے راستے سے گدھی زچّاؤں کی لاشوں  کے پاس سے نسیم زہریلی اور باد سموم سونگھتے ہوئے جانا پڑا۔
            دریائے حب کاپل اس زمانے میں  بس یونہی پل کے نام پر پلیا تھی جو ہر بارش میں یا تو بہہ جاتی یا بند ہو جاتی تھی۔ اس کے نشانات موجودہ پل کے نیچے جھانک کر دیکھے جا سکتے ہیں۔حب چوکی پر چند ہوٹل دکانیں اور ورکشاپ تھے ۔ حب چوکی والے ضروریات کے لئے لیمارکٹ کا رخ کرتے تھے۔چند پان کی دکانیں تھیں جن پر سونف خوشبو کا پان بہت فروخت ہوتا تھا۔حب چوکی کے سیدھے ہاتھ پر باغات تھے جو اب ناپید ہیں۔اونٹوں کے قافلے  گھاس اور جلانے کی لکڑیاں لے کر  حب چوکی کے راستے کراچی کی جانب  رواں دواں رہتے تھے۔ اور واپسی پر راشن لیتے ہوئے آتے۔حب چوکی پہنچ کر آٹھ آنے کے   ہری لال خوشبو کے چار پان بندھوائے  ایک منہ میں ڈالا ۔ چار پر ایک فری تھا۔چھوٹی سی باڈی کی کھلی سوزوکی تھی جس میں دری ڈال کر بیٹھ گئے تھے۔وندر پہنچتے پہنچتے دوپہر ہو گئی۔وندر بھی ایک چھوٹا سا بس اسٹاپ تھا جس پر کھانا مل گیا۔ قاسم کا بھائی  نزدیک ہی منڈی سے ایک بکرا خرید لایا جس کو سوزوکی میں سوار کرا دیا گیا۔ بلدیہ کے گڑھوں اور کچے راستے پر   چلنے سے گاڑی میں چر چوں چرچوں اور کبھی گڑروں گڑروں  کی آوازآنے لگی،جس پر کوئی توجہ نہیں دی۔قاسم کے بھائی نے آوازوں پر کہا کہ ہم تو اس پر بیس من سبزی لے کر جاتا ہوں  یہ چند آدمیوں سے کچھ نہیں بگڑتا اس کا۔ ویسے سڑک  تو ساری  بس واجبی سی ہی تھی جس پر کسی بھی گاڑی کا ہلواڑہ بننا    ہی تھا۔
 اوتھل  سے ہوتے ہوئے بیلہ آئے وہاں سے کچھ آگے سیدھے ہاتھ پر کچا راستہ  شروع ہوا۔ہر تھوڑی دیر بعد ریت میں  میں گاڑی دھنس جاتی اور ہم سب اتر کر  یا علی کہہ کردکھا لگاتے اور گاڑی نکل جاتی۔گرد پہیوں سے اڑ اڑ کر ہمارے چہروں کا  جو دھوپ او رگرمی سے تمتما رہے تھے مزید  میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔ریت مٹی کنکر گریول اور نوکیلے سنگریزوں سے بھر پور راستہ تھا۔ایک جگہ ایسی خاک نما باریک مٹی تھی کہ  نیچےاترنے پر پیر ٹخنوں سے اوپر تک  اس میں گھس گئے اور لگا کہ جلتے تندور میں چلے گئے ہیں۔سب لوگ بھاگ کر دور ہوئے۔ ایک صاحب کی چپل اس میں رہ گئی جو بھاگنے کی بنا پر نہیں ملی۔دوبارہ کسی کی ہمت نہیں ہو رہی کہ  اس گرم ریت میں جاکر گاڑی کو دھکا لگائے۔ڈرائیور شور مچائے کہ چلو دھکا لگاؤ کوئی تیار نہیں۔وہ اکیلا ہی کبھی آگَ بھی پیچھے کے گیئر ڈال کر کوشش کرتا رہا۔ناکام رہا۔ اس نے جلدی سے نیچے اتر کر پیچھے  سے دری نکال کر اسے سائیڈ میں بچھایا اور کہا کہ اب اس پر کھڑے ہو کر دھکا لگاؤ۔دری کو آگے کرتے گئے اور گاڑی کو دھکا لگاتے گئے۔راستے میں دو ندیاں آئیں ۔جن میں کپڑوں سمیت نہا کر ٹھنڈے ہوئے اور آگے چلے۔ ایک اور  خشک ندی میں گریول  سے گزرتے میں گاڑی کا ایکسل ٹوٹ گیا۔دھکا لگا کر گاڑی ندی کے پار ایک پہاڑی کے دامن میں کھڑی کی۔
اب کوئی امید اس گاڑی کے چلنے کی تو تھی ہی نہیں۔دری نکال کر بچھائی اورغور کرنے بیٹھے کہ کیا کیا جائے۔یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مزار شریف کتنی دور ہے۔شام ہو چکی تھی اور رات سر پر تھی۔ایک صاحب کو ایک بچھو نظر آگیا۔اب تو سب کی سٹی گم کہ اس علاقے میں تو بچھو ہیں۔سب دری چھوڑ کر گاڑی میں آ بیٹھے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ  اب کیا کریں۔دور دور تک آدم  نہ آدم زاد۔ میرا بھی یہ لڑکپن کا زمانہ تھا۔ اسکاؤٹنگ کا سامان میں بہاولپور ہی چھوڑ آیا تھا۔کسی کے پاس کوئی ٹارچ نہیں تھی۔ایک کی چپل ریت میں  گم ہو گئی تو   ایک آدمی کی چپل دھکے لگانے میں ٹوٹ گئی۔فلمی ہیروز کی نقل کرنا اس زمانے میں میرا خیال ہے کہ آج سے زیادہ تھا۔ہمارے ہیرو وحید مراد اور ندیم دونوں نے  پتلون کے ساتھ ہوائی چپل پہن کر اداکاری کیا کی کہ سارا  نوجوان طبقہ پتلے پائنچوں کی ٹیڈی پتلون کے ساتھ ہوائی چپل پہننے لگا۔سویلو کی ہوائی چپل آٹھ روپے جوڑی تھی ۔سو ہم سب بھی ہوائی چپل میں تھے ۔  بھلا جنگل اور پہاڑیوں میں  چپل پہنی جاتی ہے اور وہ  بھی ہوائی چپل۔
اب پارٹی میں تفرقہ شروع ہوگیا کہ ہاری ہوئی ٹیم کے کھلاڑی ہمیشہ آپس میں لڑتے ہیں۔ کچھ ڈرائیور کو کچھ کچھ کہہ رہے ہیں کچھ ایک دوسرے کو کچھ کچھ کہہ رہے ہیں۔لڑ جھگڑ کر کچھ تو طے کرنا ہی تھا۔اتنے میں ایک اونٹ والا کہیں سے آگیا۔اس سے پوچھا کہ مزار کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ بس یہ پہاڑ جہاں ختم ہوتا ہے اس کے آگے ایک خشک ندی ہے اس سے سیدھی جانب چلے جاؤ  وہاں سے پہاڑی کے ساتھ ساتھ چلے جاؤ آگے کھجوروں کے پاس  چراغ جل رہا ہوگا وہی مزار ہے۔زیادہ دورنہیں ہے تھوڑا ہی ہے۔دو آدمیوں کو گاڑی پر چھوڑا کہ ان کے پاس چپلیں نہیں تھیں اور ننگے پاؤں بچھو کا ڈر تھا۔  ایک بچھو کیا نظر آیا تھا سب کے دماغ میں بچھو بھر گئے تھے۔باقی آدمی نیاز پکانے کے چاول بکرا  اور دیگر سامان ساتھ لے کر  اندھیرے  میں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل دئیے،ان میں میں بھی تھا۔اس دور میں پانی کی یہ بوتلیں جو آج ہر گھر میں کولڈ ڈرنک کی رکھی نظر آتی ہیں  ان کا نام نشان تک نہ تھا۔ پانی یا تو مشک میں لے جا سکتے تھے یا شیشے کی بوتل یا تھرماس میں۔آج کی طرح نہیں کہ بوتل اٹھائی اور چل دئیے۔ اندھیرے میں اونٹ والے کے بتائے ہوئے راستے پر چل دئیے اور بھٹک گئے۔نہ کہیں ندی نظر آئی نہ کھجوریں نہ چراغ۔چلتے چلتے آدھی سے زیادہ رات ہو گئی۔ ہوائی چپلوں میں ببول کے کانٹے  چپل کے پار ہو کر پیر میں چبھ رہے تھے اور  ہر کانٹا بچھو  کاٹے سے کم نہ تھا۔ اس دور میں جنگلی حیات کی بھرمار تھی۔ کہیں سے گیدڑ تو کہیں سے بھیڑیوں تو کہیں سے کسی اور جانور کی آوازیں ہمارے اوسان خطا کرنے کو کافی تھیں۔ پتوں پرچوہے کے دوڑنے کی آواز بھی لگتا تھا بھیڑئیے کے  آنے کی ہے۔ بچھوؤں کا خوف الگ۔ ایک صاحب نے کہہ دیا کہ بکرا ساتھ ہے اسے دیکھ کر بھیڑئیے پیچھا کر رہے ہیں۔بس سب کی جان نکل گئی کہ واقعی ایسا ہی ہے۔  دو گدھے آرہے تھے   جن  کوہم  سوّر سمجھے۔ ہم بھاگ لئے۔جس نے بکرا پکڑا ہوا تھا وہ بکرے کو گالیاں دے رہا کہ کمبخت بھاگ ابے بھاگ سور تجھے تو ماریں گے مجھے کیوں مروارہا ہے۔ زبردستی کی تو بکرا دھڑام سے نیچے جا پڑا۔ وہ اسے اٹھا کر دوڑے۔ وہ تو ہمیں بھاگتا دیکھ کر  نمعلوم کیوں وہ ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے تو جان میں جان آئی۔  گدھے کی ڈھینچوں زندگی میں پہلی مرتبہ بلبل کی آواز سے بھی بھلی لگی۔ایک سمجھدار نے مشورہ دیا کہ یہ گدھے اپنے گھر جارہے ہونگے ان کے پیچھے چلیں  تو کسی بستی میں پہنچ جائیں گے۔اب زندگی میں یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ گدھے کو  رہنما بنانا پڑا۔ یہ تو اس واقعے کے پچاس سال بعد پتہ چلا کہ رہنما تو ہوتے ہی گدھے ہیں۔بہر حال چپکے چپکے ان کے پیچھے چل پڑے۔چلتے چلتے  دو گھنٹے بعد وہ گدھے ہمیں ایک جھونپڑی پر لے گئے۔جو اندر سےبند تھی۔جھانکا تو ایک شخص سو رہا تھا۔بہت آوازیں دیں تو اندر سے بلوچی میں آواز آئی کہ  کون ہے۔بتایا کہ مسافر ہیں راستہ بھول گئے ہیں۔  بندہ باہر آیا اور ہماری معصوم شکلیں دیکھ ہمیں بٹھایا۔پانی پلایا ۔ اپنی داستان سنائی اور کچھ کھانے کو مانگا ۔  چائے کو کہا تو کہنے لگا  راشن ہے یابس پچھلے سال کی رمضان کی کھجوریں پڑی ہیں۔اس  کا کنستر اس نے ہمیں دے دیا۔ یہ کھجوریں کیا تھیں ،کھجوروں کو کنستر میں ڈال کر کو ٹ کوٹ کر پیک کیا ہوا تھابس تلے میں لگی ایک کلو ہونگی ۔ ان میں سرسریاں  گھوم رہی تھیں  جو ہم نے ہٹا ہٹا کر کھائیں۔چینی پتی تھی  جس سے اس نے قہوہ بناکر دیا وہ پی کر  ہم چٹائیوں پرلیٹ گئے۔ بکرے نے  میں میں کرنا شروع  کر دیا ،شائد بھوکا تھا۔اب ایسے  اندھیرے میں اسے کہاں سے گھاس لا کر دیتے۔اس کی آواز بڑھتی گئی۔کم بخت ایسے ڈکار رہا تھا جیسے اس کے گلے پر کوئی چھری پھیر رہا ہو۔ایک تو ہم ویسے ہی پریشان اوپر سے میں میں کا مستقل عذاب۔کمبخت کو قتل کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔اس آدمی نے بتایا کہ  ہم گدھوں کے پیچھے لگ کر   مزار کے راستے سے بہت دور نکل آئے تھے۔ابھی اندھیرا ہی تھا کہ ایک شتر سوار کہیں سے اس  دکاندار کے پاس آگیا۔ نمعلوم بلوچی میں کیا خبر سنائی کہ  وہ ہمیں مزار کا راستہ بتا کر  جلدی میں  اونٹ پر بیٹھا اور  چلا گیا۔ہمارے بلوچ نے بتایا کہ کسی  بڑےسردار کا  ان کے علاقے بیلہ میں جلسہ ہے اور پورا علاقہ اس جلسے میں گیاہوا ہے ۔یہ بھی وہیں گیا ہے۔
صبح ہو گئی ہم لیٹے رہے اس امید پر کہ  کوئی تو اس دکان پر آئے گا  اس سے راستہ پوچھ لیں گے۔کوئی نہیں آیا۔ وہ اندھیرے میں نمعلوم کیا کیا بتا کر چلا گیا تھا۔جب دن کے نو بج گئے تو طے کیا کہ   جدھر بتایا ہے ادھر چلتے ہیں کوئی اللہ کا بندہ تو ملے گا۔ہمیں جن دو  آدمیوں کو گاڑی پر  بھوکا پیاسا چھوڑ آئے تھے ان کی بھی فکر تھی ۔بکرےکو لے کرچلے۔ بھٹکتے بھٹکتے نمعلوم کدھر جا رہے تھے کہ  دو خواتین نظر آئیں۔ان سے پوچھا کہ مزار کدھر ہے  انہوں نے  ایک جانب اشارہ کیا اور ہم اس راستے پر چل دئیے۔راستے میں ایک ندی آئی اس میں سے پانی پیا ۔دوپہر ہو گئی تھی اور ناشتےکھانے کا پتہ نہ تھا۔بکرے نے بھی پانی پیا  اور ایک لمبی میں میں ایں ایں کے ساتھ دھڑام سے زمین پر گر گیا۔منہ کھل گیا آنکھیں باہر آرہی تھیں۔لگتا تھا آخری وقت  تھا  اس بیچارےکا بلکہ   کمبخت کا ،کیونکہ اس کے بخت ہمارے ساتھ جو نتھی تھے۔۔اللہ جانے مر گیا تھا یا عالم نزاع میں تھا۔۔میں اس دور میں اپنے آپ کو ٹارزن سمجھتاتھا۔اسی لئے وزیر آباد کا چھ آنے والا چاقو جس پر لکھا تھا چاقو قلم پنسل نہ بنائے تو قیمت واپس ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا۔ ابا کے ساتھ  پنڈی  جاتے میں  ٹرین کے پھیری والے سے خریدا تھا ۔قاسم بلوچ  کے کہنے پر میں نے  اپنا ٹارزن چاقو نکالا اور بکرے کی گردن پر  پھیر دیا۔آج یہ ٹارزن چاقو  کام آ ہی  آگیا۔ ۔مالک کی گھبراہٹ دیکھئیے کہ بکرا لے آئے اور چھریاں سوزوکی میں چھوڑ آئے۔ گردن کاٹ دی  خون نہ  نکلا۔بکرے کی باڈی دبا دبا کر چند بوند خون نکال ہی دیا اس طرح اس کے حلال ہونے کی شرط پوری کر دی۔سب نے اپنی اپنی رائے دی کہ زندہ تھا جبھی تو خون نکلا۔حلا ل ہے، حلال ہے ،صحیح ہے صحیح ہے،اللہ کا شکر ہے حرام موت سے بچ گیا وغیرہ غیرہ۔اسی چاقو سے اس کی کھال اتاری۔ دس بار اسے پتھروں پر تیز کیا  تب جاکر کھال اتاری۔اس کا اوجھڑی پوٹا پھینکا،کلیجی وغیرہ ایک رومال میں باندھی،میری دھوتی گیلی کر کے اس بکرے کے گوشت کے گرد لپیٹ دی گئی۔اب پھر یہ قافلہ چلا۔تھوڑی دور چلے ہونگے کہ ایک نے مشورہ دیا سارا سامان ساتھ ہے۔پیچھے ندی میں  پانی بھی ہے۔لکڑیاں بھی جنگل میں ہیں ۔یہیں پکا لیں اپنا حصہ کھا لیتے ہیں نیاز کا مزار پر بانٹ دیں گے۔واپس ہوئے۔ابھی تیاری شروع کی تھی کہ ایک بندہ  کہیں سے اونٹ پر آ گیا۔اس سے مزار کا راستہ پوچھا اس نے کہا بس نزدیک ہی ہے۔یہ پہاڑ کے پیچھے ہے ۔ اس نے ہمارا سارا سامان گوشت  سمیت اونٹ پر باندھا اور ہمارے ساتھ چل دیا۔
آخر کار اس نے ہمیں مزار پر پہنچا دیا ۔لیکن یہ وہ مزار نہیں تھا جس پر ہمیں جانا تھا۔جس پر جانا تھا اس کا نام تھاپیر کنانواور یہ تھا گم نام۔ ایک قبر بنی ہوئی تھی ایک بڑا سا درخت اس پر ایسے تھا کہ دس پندرہ آدمی اس کے سائے میں بیٹھ سکیں۔اس پر بابا آدم کے زمانے کی ایک ہری چادر پڑی تھی۔اونٹ والا اتنی ہی زبان سمجھا کہ ہمیں کسی تربت پر جانا ہے۔ہمارا بلوچ تو بس واجبی سی بلوچی جانتا تھا اور یہ علاقہ کسی اور طرح کی بلوچی بولنے والوں کا تھا۔ اس نے نزدیکی تربت پر پہنچا دیا۔شکر ہے کہ اس مزار کے نزدیک ایک چھوٹا سا پانی کا چشمہ تھا۔اس کے پاس کلہاڑی تھی جس سے اس نے ہمارے بکرے کا گوشت بنا دیا ۔اس نے یہ بتا دیا کہ پیر کنانا یہاں سے بہت دور چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اور بیلہ یہاں سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔بیلہ کا راستہ بھی بتا دیا۔ وہ ہمیں یہاں پہنچا کر  اپنے راستے پر چل دیا ۔ ہم نے یہیں نیاز کرنے کا فیصلہ کیا۔بکرے کی بریانی پکائی۔ کوئی دوسرا نہیں آیا خود ہی کھائی۔شام ہو رہی تھی اور پارٹی میں خوب لڑائی جھگڑا ہو رہا تھا۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔چند بچے بکری چرانے والے گزرے۔انہیں اردو نہیں آتی تھی اور ہمارے بلوچ کو ان کی بلوچی نہیں آتی تھی۔بچے براہوی زبان بول رہے تھے۔اتنا سمجھ گئے کہ اپنے کسی بڑے کو بھیج دیں۔بچے چلے گئے۔ہمیں فکر اپنے ان دو ساتھیوں کی تھی جو سوزوکی میں تھے۔انہیں چھوڑے ہوئے چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہو چکے تھے۔اب پھر رات ہونے والی تھی۔ہم ان بچوں کے بڑوں کا  انتظار کر رہے تھے جو کسی طرح پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔درختوں اور پہاڑیوں  میں  دور جاتا کتّا یا گیدڑ بھی ہمیں بھیڑیا معلوم ہوتا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھیڑئیے اس زمانے سے اب تک اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔انسانوں پر حملے کے بھی جھوٹے سچے قصے سن رکھے تھے۔اس لئے خوف بھی تھا۔ واحد ہتھیار  بس میرا ٹارزن چاقو تھاجو گوشت کاٹنے کے دوران اپنی کمر تڑا بیٹھا تھا۔اب ہم میں سے دو کی ہوائی چپل بھی۔کپڑے سے باندھ کر چلائی جا رہی تھیں۔رات ہو گئی کوئی نہیں آیا۔بیلہ والے راستے پر چل دئیے۔ان علاقوں میں مغرب کے بعد سب اپنے گھروں میں ہوتے ہیں۔اب تو کسی کے ملنے کا بھی آسرا نہ تھا ۔جنگل کے راستے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ  جو جانتا ہے وہی ان پر جاسکتا ہے۔جہاں ایک سے دو راستے ہوئے اور نیا آدمی پریشان ہوا۔ان راستوں میں بھٹک کر بھوک  پیاس سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔جس قبر پر ہم نے کھانا پکایا تھا وہ بھی کسی ایسے ہی بھٹکے ہوئے مسافر کی تھی جسے مقامیوں نے دفن کر دیا تھا۔اسی لئے اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ہمارا بھٹکنا لازمی تھا۔راستے سے  لکڑیاں توڑ کر ڈنڈے بطور ہتھیار بنا لئے تھے۔آدھی رات تک چلتے رہے پیاس سے برا حال۔کوئی پانی نہیں۔ایک جگہ تنگ آکر بیٹھ گئے۔بچا ہوا کھانا کھا لیا۔بغیر پانی کے کھانا اندر نہیں جا رہا تھا۔ایک نے مشورہ دیا کہ  الاؤ جلا لو جنگلی جانوروں سے بچت ہو جائے گی اور شائد کوئی روشنی دیکھ کر ہماری طرف آجائے۔
ساری ترکیبیں ناکام ہو گئیں۔ رات بھر کوئی نہیں آیا۔یا اللہ جائیں تو کہاں جائیں۔پیاس سے برے حال کی وجہ سے ایک صاحب نے تو چلنے سے انکار کر دیا۔کہ وہ  کہنے لگے کہ میں ایک قدم نہیں چل سکتا۔آپ لوگ جہاں مرضی آئے جائیں۔میں یہیں مروں گا۔ رات سے وہ خاموش تھے ہم سمجھے کہ یونہی خاموش ہیں ۔اب اندازہ ہوا کہ ان میں پانی کی کمی ہو گئی ہے اور ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔طے ہو اکہ ارد گرد پانی ڈھونڈا جائے۔پہاڑ پر چڑھ کر ادھر ادھر دیکھا۔ ایک سوکھی ندی نظر ائی۔دو آدمیوں کو ادھر بھیجا  پتیلا دے کر کہ ندی میں چلتے جانا کہیں نہ کہیں پانی مل جائے گا پانی لے کر واپس  آجانا ۔وہ جلد ہی پانی لے کر واپس آگئے۔سب نے پیا اور ان صاحب کی حالت بھی ٹھیک ہو گئی۔ایک بکری چرانے والا بھی ندی سے آتا ہوا نظر آیا۔اس سے ملاقات ہوئی ۔اس نے بتایا کہ تم لوگوں کو توپوری بیلہ پولیس  اور سردار تلاش کر رہے ہیں۔کل تمہارے دو آدمیوں کے ساتھ پولیس والے آئے تھے اور تم لوگوں کو پوچھ رہے تھے۔۔پھر سردار کے آدمی بھی آئے تھے وہ بھی پوچھ کر پیر کنانو کی طرف گئے ہیں۔اب ہماری جان میں جان آئی کہ  ہم بھٹک کر نہیں مریں گے لوگ ہماری تلاش میں ہیں۔اس کو ہم نے بتایا کہ ہم نے  کل سے کچھ نہیں کھایا۔ہماری مدد کرے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا۔وہاں چند گھر تھے۔ان سب نے مل کر ہمارے لئے کھانے کا بندو بست کیا۔بکرا کاٹ کر پکایا اور گرم گرم روٹیاں پکا کر لائے۔ایک آدمی کو اونٹ پر روانہ کیا کہ وہ سردار کو ہماری خبر کرے۔
شام چار بجے کے قریب تین جیپوں میں ہمارے دونوں آدمی، سردار  اور اس کے آدمی  اور پولیس والے   ہمارے پاس آئے۔ان کے ساتھ ایک ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر بھی تھا۔یہ  ریسکیو ٹیم تھی جو ہمیں تلاش کر رہی تھی۔ڈاکٹر نے ہمارا حال  پوچھا چیک کیا سب کو نمک چینی کا پانی پلایا۔وہاں سے ہم اپنی سوزوکی پر لےجائے گئے۔جسے باندھ کر بیلہ تک لایا گیا۔وہاں ایک مکینک کو بلا کر اسے ٹھیک کرنے کا کہا۔ہمیں چوکی پر لے گئے جہاں اور کچھ لوگ ہمیں ملنے آئے میرا خیال ہے یہ ضلعی افسران ہونگے۔جب تک گاڑی بنتی رہی ہم سب بات چیت کرتے رہے۔ہمارے بعد یہ ہوا کہ وہ دو آدمی گاڑی میں بیٹھے رہے۔پیر کنانا سے ایک جیپ آرہی تھی جو وائلڈ لائف والوں کی تھی۔ ان دونوں نے ان کو اپنی کہانی سنائی اور کہا کہ ہمارے آدمی پیر کنانا گئے ہوئے ہیں۔ابھی تک نہیں آئے۔ہم بھی کل سے بھوکے پیاسے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم تو وہیں سے آرہے ہیں وہاں تو کوئی نہیں۔وہ انہیں اپنے ساتھ بیلہ لائے۔کھلایا پلایا اور پولیس کو اطلاع دے دی کہ کچھ زائرین گم شدہ ہیں۔انہوں نے وائرلیس  پر  سردار کی سکیوریٹی چوکی پر اطلاع دی۔اور سرچ آپریشن شروع کر دیا۔کل سارا دن یہ ہمیں ڈھونڈتے رہے۔ہم بالکل ہی غلط ٹریک پر تھے۔مزار اگر شمال کی جانب تھا تو ہم جنوب کی جانب جا رہے تھے۔ان لوگوں نے لیمارکیٹ جانے والی بس کے ڈرائیور سے گھر والوں کو پیغام  بھی بھجوا دیا تھا کہ گاڑی خراب ہوگئی ہے ایک دن دیر سے آئیں گے۔
سردار نے کہا جب بھی مزار پر جانا ہو جیپ میں جانا اگر جیپ کا بندوبست  نہ ہو تو میرے پاس آجانا جیپ دے دونگا۔یہ راستہ سوزوکی کے قابل نہیں ہے۔ پہلے کچھ ٹھیک تھا اب تو بہت خراب راستہ ہو گیا ہے۔گاڑی ٹھیک ہوئی سردار اور پولیس آفیسر نے ہمیں  دعائیں دے کر خدا حافظ کہا۔نہ گاڑی ٹھیک کرنے کے اور نہ ٹینک فل کرنے کے کوئی چارجز لئے۔ وہاں سے چلے اور آدھی رات کو لیمارکیٹ  قاسم بلوچ کے گھر پہنچے۔قاسم بلوچ نے مجھے نالے پر گرم گرم چھوٹے کے پائے نان کھلائے،جمعہ پائے والا مشہور تھا چوبیس گھنٹے پائے ملتے تھے۔پائے کھا کر دو دودھ پتی کا آرڈر دیا۔اسے خدا حافظ کہا۔اپنی سائیکل اٹھائی۔اس کی سیل والی لائیٹ جلائی اور گانے گاتا ہوا ناظم آباد میں اپنے فلیٹ پر پہنچ  گیا۔اکیلا رہتا تھا میرا کون منتظر تھا جو کوئی فکر ہوتی ۔اب جو سویا  تو شام کو جب اٹھا جب فلیٹ کے نیچے والا محفوظ الرحمان بنگالی کٹا کٹ مچھلی فروش بنگال سے آئے ہوئے  ناریل تحفے میں دینے اوپر آیا۔آج جب نصف صدی بعد پیر کنانا اپنی بائیک پر گیا تویہ نام بھی یاد آگیا اور ساری کہانی کی یادیں بھی تازہ ہو گئیں۔مرحوم قاسم بلوچ بھی یادآگیا۔