حسین بلوچستان
اللہ
تعالیٰ نے پاکستان کو تمام قسم کے جغرافیائی حسن سے نوازا ہے۔پاکستان کے شمالی
علاقے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ملکی او رغیر ملکی سیاح یہاں کی خوبصورتی دیکھنے کے
لئے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنوبی پاکستان کو بھی بے حساب رعنائیوں سے نوازا ہے۔جنوبی پاکستان
میں بلوچستان اور سندھ شامل ہیں۔ آج کی تحریربلوچستان کے لئے ہے۔بلوچستان میں تمام جغرافیائی بناوٹیں
موجود ہیں۔ ایک لمبا سمندر جو دریائے حب کے ڈیلٹا سنہرا سے شروع ہوتا ہے اور جیونی
سے آگے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار سے کچھ پہلے ختم ہوتا ہے۔اس ساحل کی لمبائی پاکستان کے کل 1046کلو میٹر ساحل میں
سے 720 کلو
میٹر ہے۔گرم پانی کا یہ سمندر اپنے حسن
اور خوبصورتی میں دنیا کے کسی بھی سمندر سے
سے کم نہیں۔موسم گرما میں اس کی دُور سے آتی لہریں اتنا دلچسپ اور خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں کہ
نگاہیں ان سے ہٹتی ہی نہیں ہیں۔کہیں اونچی کہیں نیچی کہیں بہت اونچی کہیں سے ایکدم
نیچی۔ اٹھکیلیاں کرتی یہ لہریں سیاحوں کا دل لبھاتی ہیں۔ سیاحوں میں اس
وقت سراسیمگی پھیل جاتی ہے جب کوئی ماہی
گیری کی کشتی اچانک لہروں میں غائب ہو جاتی ہے۔لیکن یہ اصل میں اونچی لہروں کے
پیچھے ہو کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
بلوچستان کا سمندر کہیں ریت کے ٹیلوں کے
ساتھ ہے جیسے سونمیانی ڈام کے مناظر ہیں
،کہیں یہ تمر کے جنگلات کے ساتھ ساتھ ہے
جیسے بھڑو سے سرندا وغیرہ،کہیں یہ پہاڑوں کے ساتھ لگا ہوا ہے جیسے ہوڑمارہ اور
گوادر وغیرہ کا سمندر۔موسم سرما میں اس
سمندر کا پانی گرم ہوتا ہے۔لہریں نہیں ہوتیں
دور دور تک سیدھا نیلگوں
سمندر بہترین نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے،جس
میں رنگین کشتیاں اس کے حسن کو چار چاند لگا رہی ہوتی ہیں۔دنیا بھر سے آتے تجارتی
بحری جہاز موسم سرمامیں بہت دور سے
صاف نظر آتے ہیں۔سیاحوں خاص طور پر بچوں کے لئے جو ان کی گنتی کررہے ہوتے ہیں بہت
پسندیدہ ہوتا ہے۔
بلوچستان
میں بلوچستان کوسٹل ہائی وے بھی ایک سڑک ہونے کے ساتھ ساتھ کئی دلچسپ تفریحی مقامات کا مجموعہ ہے ۔اس کے ارد گرد بیشمار تفریحی اور تاریخی
مقامات ہیں۔یہ ہائی وے 653کلو میٹر لمبی ہے جو زیرو پوائنٹ وندر کے بعد سے شروع ہوتی
ہے اور ہوڑماڑہ،پسنی،گوادر،جیونی سے ہوتی ہوئی ایران کی سرحد تک جاتی ہے۔اس ہائی
وے پر ہنگول نیشنل پارک آتا ہے۔یہ پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے جس میں جنگل ،پہاڑ، ریگستان،ساحل
سمندر،دریا،چٹیل میدان اور ٹیلے شامل ہیں۔اس پارک میں جنگلی حیات کی بہت سے اقسام
پائی جاتی ہیں اور سیاحوں کو یہ نظر بھی آتی ہیں ۔یہ پارک ڈسٹرکٹ لسبیلہ،ڈسٹرکٹ
آواران اور ڈسٹرکٹ گوادر کے علاقوں پر
مشتمل ہےاس میں سمندر کا علاقہ بھی شامل ہے۔اس میں درندے، چرندے، پرندے،رینگنے
والے جانور،چوپائے، ،مچھلیاں ،سمندری جانور شامل ہیں۔بھیڑئے،گیدڑ،لومڑیاں،چیتے،چرخ
لکڑ بھگڑ،ہرن آئی بیک،پہاڑی بکرے مار خور اڑیال،مگر مچھ،سبز کچھوے،کئی اقسام کی
مچھلیاں،گھونگھے،سیپیاں، خار پشت چیونٹی خور
اور بیسیوں جانور پائے جاتے
ہیں۔مہمان آبی پرندے بھی اس میں آکر اترتے
ہیں۔شکار پر پابندی ہے اور اس پر کافی حد تک عمل بھی ہوتا ہے۔
اس ہائی
وے پر ہندووں کے دو مقدس مقامات ہیں۔ایک
تو نانی ہنگلاج کا مندر ہے جو دریائے ہنگول کے کنارے واقع ہے اس کی تاریخ
ہزاروں سال پرانی ہے۔آریاؤں
کے آنے سے بھی پہلے دراوڑوں میں جو بھی
مذہب رائج تھا ،یہ اس زمانے سے موجود ہے۔سکندراعظم کے ایک جرنیل نے یہاں کے
یاتریوں اور سادھوؤں کا ذکر کیا ہے جو بڑی
تعداد میں یہاں عبادت میں مصروف تھے۔اس مندر میں اپنے وقت کے بڑے بڑے بادشاہ اور وزراء حاضری دینے
میں بڑا فخر محسوس کرتے تھے۔شاہ عبدالطیف
بھٹاِئی نے بھی یہاں کا دورہ کیا تھا۔ہر سال یہاں لاکھوں ہندو اندرون ملک اور بیرون ملک سے یاترا کے لئے آتے ہیں۔ یہ ایک قومی نہیں بلکہ عالمی ورثہ ہے۔
بلوچستان کوسٹل ہائی وے پر فور کے مقام سے کچھ آگے ایک مٹی
فشاں واقع ہے۔ ۔ یہ ایک تین سو میٹر اونچا قدرتی ٹھنڈا لاوا اگلنے سے وجود میں آنے والا ایک مٹی فشاں
ہے۔بلوچستان میں ایسے بہت سے مٹی فشاں ہیں۔یہ سب سے بڑا ہے اور اسے ہندو مت میں ایک مقدس مقام حاصل ہے۔ وہ اس کو
چندر گپ کہتے ہیں ۔ہندو کمیونٹی جب نانی
ہنگلاج کی یاترا کے لئے آتی ہے تو یہاں
بھی پوجا کرتی ہے۔ اس کے دہانے میں ناریل پھینک کر کوئی رسم ادا کی جاتی
ہے۔جغرافیائی بناوٹ کے ایسے شاہکا رپاکستان کے دوسرے صوبوں میں نہیں پائے جاتے۔
صوبہ بلوچستان مچھلیوں کی دولت سے مالا مال ہے۔یہاں چھوٹی بڑی
ماہی بندر موجود ہیں۔یہ تمام ماہی بندر سیاحت اور
پکنک کے لحاظ سے بہت موزوں ہیں۔ سنہرا،گڈانی،سونمیانی،ڈامب،ہوڑ ماڑہ،طاق
بندر،پسنی ،پشکان،گنز،گوادر اور کچھ چھوٹی ماہی بندر اپنی خوبصورتی کے لحاظ
سے قابل دید ہیں۔ان میں سے گڈانی اور
سنہرا کراچی کے شہریوں کے لئے اچھے پکنک پوائنٹس ہیں جہاں چھٹیوں کے دنوں میں
تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ملیر
کنڈ میں اب کافی لوگوں کا آنا جانا ہونے لگا ہے۔ملیر کنڈ کراچی سے 200 کلو میٹر پر
ایک بہت خوبصورت ساحلی علاقہ ہے۔یہاں اتھلا اور محفوظ سمندر ہے۔موسم گرما کے علاوہ
تمام سال بہترین اتھلا ساحل ہوتا ہے۔اس سے ملحقہ علاقے بوجی کوہ،رس میلان،شنب، سپٹ
وغیرہ قابل دید مقامات ہیں۔مچھلی کے شوقیہ شکاریوں نے یہ تمام علاقے لوگوں میں
متعارف کرائے ہیں۔
ساحلی
علاقوں کے علاوہ بھی بلوچستان میں بہت سے قابل دید تاریخی ،منفرد،آثارقدیمہ اور مذہبی و رومانوی
مقامات ہیں۔بے شمار مقبرے اور زیارتیں
لوگوں کی روحانی تسکین کا باعث ہیں۔ کراچی سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر
مشہور بزرگ بلاول شاہ نورانی کی درگاہ ہے۔اسی کے نزدیک محبت فقیر کا مزار اور
لاہوت لا مکاں کا متبرک مقام ہے۔سارا سال
یہاں زائرین کا میلہ لگا ہوتا ہے۔بلوچستان میں دور دراز مقامات پر درگاہیں اور
مزارات ہیں۔ماہی پیر،پیر بمبل،شاہ حسن،آری پیر، دیوانے شاہ، پیر کنانا، ساندھ فقیر اور دیگر مزارات سے
برکتیں اور روحانی فیض حاصل کرنے والوں کا ان جگہوں پر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ درگاہیں زائرین
کو طعام و قیام کی سہولیات مفت فرہم کرتی ہیں۔جنگل بیابان
میں طعام و قیام مل جانا بہت بڑی سہولت
ہے۔
رومانوی کرداروں سسی
پنوں کی آخری آرام گاہ ایک مزار کی صورت
میں حب چوکی سے ساکران پھر کچھ آگے جاکر پکی سڑک سے کوئی بیس کلومیٹر بائیں جانب
پہاڑوں کے درمیان ایک خوبصورت وادی میں واقع ہے۔سسی کا کنواں بھی ابھی تک موجود ہے
اور خواتین کے لئے ابھی تک پتن کا کام کر
رہا ہے۔گاؤں گوٹھوں کی
خواتین یہاں آکر پانی بھرتی ہیں اور کپڑے دھوتی ہیں۔مشہور رومانوی کردار شیریں فرہاد کا مقبرہ بھی
آواران روڈ پر موجود ہے۔یہاں جاتے میں جھاؤ کا لک درّے کی چڑھائی اور خوبصورتی لاجواب ہے۔ایک ایک حصے کو کیمرے
میں قید کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔
ماہی پیر کا
علاقہ سیاحتی حلقوں میں شہر روغاں یا شہر
غاراں کہلاتا ہے۔ایک چھوٹا سا مزارماہی پیر کا ہے
لیکن یہ علاقہ نامعلوم مخلوق کے بنائے ہوئے پہاڑی غاروں کی وجہ سے دنیا میں
ایک انوکھا اور آثارقدیمہ کا شاہکار ہے۔دو
پہاڑیوں کے درمیان سے گزرنے والے راستے کے
اندر مزید تین پہاڑیوں میں پہاڑ کو کھود کر اس میں رہنے کے کمرے بنائے ہوئے
ہیں،کمرے کے اندر کمرے اور باہر دالان۔یہ کسی نامعلوم زمانے کی نامعلوم مخلوق کے
بنائے ہوئے غار ہیں ۔ان کو حفاظتی لحاظ سے
بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا ہے۔ دو پہاڑیوں کے درمیان سے گزر کر پوری بستی ہے۔ان
پہاڑیوں میں بنے غاروں سے تیر اندازی یا
سنگ باری کر کے دشمن کی پوری فوج کو روکا
جا سکتا ہے۔آندھی بارش طوفان ان غاروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ماہرین یا نام نہاد ماہرین کے مطابق یہ نینڈر تھل دور کے
مکانات ہیں ۔یہ بدھ مذہب کے مونکس کی بھی
بستی بتائی جاتی ہے۔کچھ لوگ انہیں پریوں
کا مسکن بتاتے ہیں۔ایسی شاندار اور قیمتی متاع کو ہم نے تباہ ہونے کے لئے چھوڑا
ہوا ہے۔ان میں پائے جانے والے خزانے کی تلاش میں مقامی لوگ ان کا فرش کدالوں سے
توڑ کر انہیں تباہ کر رہے ہیں۔اب تو ڈیٹیکٹر کا بھی سہارا لیا جا رہا ہے۔اتنے
قیمتی ورثے کی حفاظت کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں
پرانے اور تاریخی شہراپنی پرانی عمارتوں اور
نئی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں قلعہ سیف اللہ،کوئٹہ کا قلعہ اورقلعہ
عبداللہ قابل دید شاندار قلعے ہیں جو ہمارے شاندار ماضی کا حصہ ہیں۔ بہت سے چھوٹے
بڑے تاریخی شہر کوئٹہ، قلات ،خضدار،چمن ،تربت، ژوب، سبی گوادر پسنی اور دیگر شہر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ان میں تاریخی عمارات
کثیر تعداد میں موجود ہیں اور یہ قابل دید ہیں۔پرانےزمانےکے قبرستان بھی
اپنے مکینوں کی کہانیاں سنانےاور دکھانے کے لئے موجود ہیں۔ ۔ ان میں موجود مقابر
فنکارانہ صلاحیتوں اور فن تعمیر کے نادر
نمونے ہیں۔چوکنڈی طرز کی قبریں بلوچستان
میں کئی جگہ پاِئی جاتی ہیں۔ ۔ایک قبرستان
حب کے قریب آر سی ڈی ہائی وے پر واقع ہے۔ ایک دریجی کے قریب ہنی دان میں
واقع ہے۔لسبیلہ میں بھی ایسی قبریں پائی جاتی ہیں۔ دریائے ہنگول کے قریب بھی چند
صحابہ کی ایسی ہی قبریں موجود ہیں۔اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر ایسی
قبریں موجود ہیں جو ہمارا تاریخی اثاثہ اور
قومی ورثہ ہیں۔دور دراز علاقوں میں ان قبرستانوں کا مکمل سروے تک نہیں
ہوا۔لوگوں نے ٹریکٹر اور بلڈوزر چلا چلا کر خزانے کی تلاش میں ان کو مسمار کر دیا
ہے اور مسلسل ان کو برباد کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے
پہاڑی علاقے جن میں کوئٹہ چمن زیارت اور دیگر شہر شامل ہیں گرمیوں میں بھی ٹھنڈے
ہوتے ہیں۔پورے ملک سے لوگ یہاں کے موسم کا
لطف اٹھانےآتے ہیں۔ غیر ملکی سیاح بھی ان علاقوں کی سیاحت کو آتے ہیں۔زیارت میں
ریذیڈنسی ہے جس میں قائد اعظم رح نے اپنے آخری ایام بسر کئے تھے۔پیر
غائب کی آبشار ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔خضدار کے بزدیک مولا چٹک ایک سارا سال
بہنے والی انتہائی خوبصورت آبشار ہے ۔کوئٹہ کے نزدیک حنا جھیل کو تو بلوچستان کی
سیاحت میں ایک انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔وادیِ بولان کی خوبصورتی تو سیاحوں کو
اپنی جانب بار بار بلاتی ہے۔جھل مگسی میں
پیرچتل نورانی کے پانی کی بڑی بڑی مچھلیاں جو نہانے والے سیاحوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں،ان کی
ٹانگوں میں گھس جاتی ہیں ،بہت اچھا تجربہ ہوتا ہے۔
پاکستان کا سب
سے بڑا جزیرہ استولا آئی لیندڈیا جزیرہ ہفت تلار ایک بہترین سیر گاہ ہے۔اس پر پسنی
یا گوادر سے لانچ لے کر پہنچا جا سکتا ہے۔یہ ابھی تک انسانی دستبرد سے محفوظ ہے
اور سبز کچھووں اور مہمان پرندوں کی
آماجگاہ ہے۔اس کو جنگلی و آبی حیات کے لئے محفوظ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔اس
جزیرے پر کسی زمانے میں سکندرِاعظم کے ایک جرنیل نے قبضہ کر لیا تھا اور آنے جانے
والے بحری جہازوں کو لوٹ لیا کرتا تھا۔اس کا بلوچ سرداروں نے قلع قمع کیا۔
اس ایک چھوٹے
سے مضمون میں بلوچستان کے سیاحتی مقامات کا
مختصر سا تعارف بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔تفصیلی تعارف کے لئے تو پوری کتاب کی
ضرورت ہے۔جنوبی پاکستان کی سیاحت کرتے وقت ایک غلط فہمی بلوچستان کے امن و امان کے
بارے میں عام ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں ہر جگہ بندوق بردار لوگوں کو اغوا اور قتل کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے
ہیں۔ایسا ہر گز ہرگز نہیں ہے۔جو لوگ
بلوچوں کے کلچر اور مزاج سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ بلوچ اپنے علاقے میں کسی مسافر یا سیاح کو نقصان نہیں پہنچاتا ۔وہ ہر
مسافر کو مہمان سمجھتا ہے۔مہمان نوازی میں
وہ پیش پیش ہوتا ہے۔فیملی والوں کو نقصان
پہنچانا تو دور کی بات ہے،معمولی سی پریشانی بھی نہیں ہونے دیتا۔اس لئے سیاحوں کے
لئے بلوچستان ایک محفوظ ترین علاقہ ہے۔راقم جب بلوچستان کا بائیک پر سفر کرتا ہے
تو اکیلا میلوں تک بے خوف و خطر چلا جاتا
ہے۔جہاں رات ہوجائے کسی بھی مکان یا جھونپڑی میں جا کر بتاتا ہے کہ مسافر ہوں تو شب بسری اور طعام کا
بندو بست ہو جاتا ہے۔ گرمیوں میں پورا جنوبی پاکستان سوائے پہاڑی علاقوں کوئٹہ
قلات ریجن کے گرم ہوتا ہے۔سردیوں میں پورا جنوبی پاکستان دیکھنے اور سیرو سیاحت کے
قابل ہوتا ہے۔
شمیم الدین غوری