Thursday, June 30, 2016

خیراں مائی

خیراں
 بوٹے کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے۔ اب تو لوگ اسے دوسری شادی کا مشورہ دینے لگے تھے۔ جمعرات کوبوٹا جب کھیت میں چلا جاتا تو اس کی گھر والی  مسجد میں تیل ڈالنے اور مولوی صاحب سے دعا کے کرانے حجرے میں چلی جاتی۔ چکر لگاتےآخر کار اللہ میاں مہربان ہوا۔اور دائی جنداں نے خوشی کی امید دلائی۔مولون نے اس کی بیوی کومشورہ دیا  کہ  شاہ صاحب کی دیگ بانٹ دے تو انشااللہ خیر ہی خیر ہوگی۔ ۔بوٹے نے  مولوی صاحب  سے آٹھ آ نےمسجد میں تیل کے  اور ایک مرغی دے کر سعد گھڑی نکلوائی۔ جو ہمیشہ کی طرح آنے والی جمعرات کو ظہر کے بعد کی تھی۔لکڑیاں محلے  کے لڑکے کاٹ لائے آئے۔چاول گھرکے تھے اور دیگر سامان  بنئے کے ہاں سے ادھار آگیا۔اپنی ایک بکری مولوی صاحب سے کٹوا کر   دوپہر میں دیگ کر دی ۔ نیاز دلوانے کے بعدبڑا حصہ اور بہت سی  بوٹیاں  مولوی صاحب کو بھجوا دیں آخر انہوں نے اس نیک کام کو بغیر معاوضہ انجام دیا تھا۔
بوٹے  کے آنگن میں ایک شہزادی ایک حور پری جیسی  بیٹی نے جنم لیا۔دوسری شادی کا مشورہ دینے والے خاموش ہو گئے۔نام اس کا نوری رکھا لیکن ایک بزرگ نے جو اس کو خیراں کہا تو خیراں کے نام سے مشہور ہو گئی ۔ اس  کی خوبصورتی اور  اٹھان سے ماں پریشان تھی۔اب اس کے آنگن میں بیری پر پتھر آنے لگے۔پتھروں میں اضافے کی وجہ سے ماں نےکمسنی میں ہی اپنے بھانجے سے بیاہ دیا ۔
گڑیاں کھیلنے کے دن تھے کہ سسرال آگئی۔ساس نے ایک جھونپڑی اپنے کھلے آنگن میں اس طرح بنا دی کہ راستہ اس کی جھونپڑی کے سامنے سے گزرے۔جھونپڑی سرکنڈوں کی بنی تھی۔اس پر سردی اور بےپردگی  کے بچاؤ کے لئے مٹی کا لیپ کرنا تھا۔شوہر نے گارے میں بھوسہ ملا کر پیروں سے اسے گوندھ کر تیار کردیااور کھیتوں پر چلا گیا۔ شام تک ساس کے ساتھ مل کر جھونپڑی اورفرش کی لپاِئی کر دی۔دو دن بعد اس کا مٹکا  بستر اور صندوق اس  جھونپڑی  میں رکھا گیا۔یہ اس کا گھر تھا۔اس گھر کی دیواروں اور فرش کو وہ آدھے ٹوٹے گھڑے میں بھیگی ہوئی ملتانی مٹی کا پوچہ لگاتی تو گویا سارا گھر نیا ہو جاتااور تمام دن مٹی کی خوشبو مہکتی رہتی۔یہ ایک محبت بھرا گھر تھا۔یہ خیراں کا گھر تھا۔
اس کا شوہر اللہ دتہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔وہ جو کہتی پورا کرتا۔اس نے جھونپڑی میں تین جانب ایک کارنس بنوایا جس پر اپنے ہاتھ سے کڑھائی  کی ہوئی ریشمی کپڑے  کی جھالر ڈالی ۔سسر شہر گیا تو اس کے لئے ایک ٹرانزسٹر ریڈیو لے آیا۔اس  نے کروشیے سے اس کا خوبصورت کور  بنا یا  جھالر والا ۔ اللہ دتہ  جب اس کو بجاتا ہوا نکلتا تو سارا گا ؤ ں دیکھتا اوروہ فخر سے پھول جاتا۔ اللہ دتہ کھیت میں اس سے گانے اور خبریں سنتا اور شام کو  آتا توسونے تک پورا گھر اس سے خبریں اور گانے سنتا رہتا۔
کم عمری اورماں بنے کی اہلیت میں کچھ تال میل کی کمی ہوتی ہے۔یہی خیراں کے ساتھ ہوا۔دائی نے کہا کہ  یہ کیس اس کے بس کا نہیں۔شہر کی  لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ سول ہسپتال کا کیس ہے۔سول ہسپتال میں اللہ دتہ کو بتایا کہ جڑواں  بچے ہیں۔بڑا آپریشن ہوگا۔خون کا بندوبست کرو۔یہ بھی بتا دو کہ کس کی زندگی عزیز ہے۔بچوں کی یا بیوی کی؟ وہ ہکا بکا رہ گیا اور کچھ نہ بولا۔بس اتنا کہا کہ اللہ رحم کرے گا۔اللہ نے رحم کر دیا  ایک ساتھ دو بچے زندہ سلامت اور بیوی بھی زندہ لیکن سلامت نہیں۔تین ماہ میں تین آپریشن ہوئے اللہ اللہ کر کے نارمل زندگی کی جانب لوٹ آئی ۔لیکن اب مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم۔
خیراں کے دن اب اپنے بچوں اور شوہر کی خدمت میں گزرتے۔بچوں کو سکول میں داخل کیا۔ایک جھونپڑی اور بنا لی اس میں بھی وہی ملتانی مٹی کا پوچہ لگانا۔اللہ دتہ اب خوب محنت سے کام کرتا۔اس کا باپ اب اس کے ساتھ کام نہیں کرسکتا تھااس لئے اسے ساری زمین اکیلے ہی سنبھالنی  پڑتی۔ساس نے بھی  ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دیں۔اب وہ ہل بیل۔کدال۔پھاوڑے،درانتی،رسیاں،بکریاں،چارہ پانی سب کی نگرانی کرتی اس نے اللہ دتہ سے کہہ کر کھیتی باڑی اور گھرداری   کا کافی سامان جمع کر لیا تھا تاکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی ضروریات پوری کر سکے۔
خیراں سب کے لئے خیر ہی خیر تھی۔۔محلے سے کوئی ستلی مانگنے آتی کوئی پیاز لینے چلا آرہا ہے کوئی کدال مانگ رہا ہے تو کوئی درانتی مانگنے آتا ۔کسی کے گھر میں گندم ختم ہو گئی تو ایک آدھی بوری دے دی کہ تین ماہ باقی ہیں جب تک کے لئے تو کافی گندم ہے۔ کسی کو ہل چاہئے ہوتاتوکوئی ہتھوڑا مانگ رہا ہے ۔ ۔ایک ایک چیز کا اسے پتہ تھا کہ  کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔جو آتاسے کہتی جاکر چھوٹی جھونپڑی میں لال پیٹی سے نکال لو یا کہتی سامنے ٹوکرے میں درانتی پڑی ہے نکال لو۔اللہ دتہ اگر کوئی چیز   رکھوا دیتا تو دس سال بعد بھی پتہ ہوتا تھا کہ کہاں رکھی ہے۔۔ہر رنگ کا دھاگہ سوئی،سوئا قینچی کیا کیا اس سے مانگنے محلے کی عورتیں آتیں اور اس کے پا س کبھی انکار نہ ہوتا۔ ایک فیض تھا جو اس گھر سے پوری بستی کے لئے جاری تھا۔
 بچے میٹرک کر کے شہر چلے گئے۔پہلے سسر کا انتقال ہوا۔چند ماہ بعد ساس چل بسیں۔کام کا بوجھ بڑھ گیا۔بکریاں بھینس مرغیاں،شوہر کی روٹی لے جاناکھیتوں کی نگرانی کرنا ایک بڑا کام تھا۔وہ تو شکر ہے کہ محلے کی لڑکیاں بالیاں اس کے کام کرا دیتیں۔اللہ دتہ نے نئی ہنڈا موٹر سائیکل لی اور اس پر بٹھا کر اسے شہر لے گیا۔ بچوں کے کالج بھی گئی۔اپنی  گاڑی پر سفر کر کے  اسے ایسا لگا کہ وہ کوئی ملکہ یا مہا رانی یا چوہدرائن ہے۔ سال میں دو تین مرتبہ بچے آتے تو اس کی عید ہو جاتی۔کالج کی پڑھائی تھی اوربچے محنتی ۔خوب دل لگا کر پڑھتے اور اچھے نمبر لاتے۔
زرعی بیج،کھاد،کیڑے مار ادویات اور تمام آلات کا اس کے پاس حساب ہوتا،خود کہتی اگلے ماہ گندم اگانی ہے اس کا بیج الگ رکھا ہے۔اس ماہ کھاد ڈالنی ہے تو اس ماہ دوا چھڑکنی ہے۔اس کے اس سگھڑ پن سے اللہ دتہ جس کے باپ کا گھرانہ مشکل سے اس زمین سے گزارہ کرتا تھا اب اس قابل ہو گیا تھا کہ مزید زمین خرید لے۔بچوں نے زرعی کالج سے ڈگریاں لیں۔ادھر زمین مزید بڑھ گئی۔اللہ دتہ بھی اب بوڑھا ہونے لگا۔اس کی  کوشش تھی کہ  کسی طرح بچے اب زمینداری سنبھالیں اور وہ حج پر چلا جائے۔
بچوں نے آکر زمین سنبھالی۔ ان کی پڑھائی نے دو تین سال میں زمینوں پر اپنا اثر دکھایا۔کیا فصل ہونے لگی کمال ہو گیا۔ ایک ایکڑ میں آٹھ من گندم تو تیس من  چاول۔تمام پیسہ ہمیشہ کی طرح خیراں کے پا س جمع ہوتا۔بیج لینے جانا ہو یا باردانہ بچے اپنی اماں کو ساتھ لے کر جاتے اور  اور وہ ادائیگی کرتی۔سارا گاؤں اور شہر کے دکاندار اسے جانتے تھے۔اکژبڑی رقموں کا سودا ہوتا تو دکاندار کہتے خیراں مائی پیسے مت لایا کرو ہم خود آکر لے جائیں گے۔ زمین  بڑھتی گئی اور کام کر نے والے بھی بڑھتے گئے۔بچوں کے لئے دو پکے کمرے بنوا دئے لیکن خود اپنے اسی گھر میں رہی۔اللہ دتہ حج سے آکر اللہ اللہ میں لگ گیا۔بچوں پر پورا بھروسہ تھااور وہ اس پر پورے اتر رہے تھے۔
بچوں کی شادی  کے لئے دو لڑکیاں دیکھیں  بھلا ان کو کون انکار کرتا۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ۔اگلے پانچ سال میں اللہ نے پانچ پوتا پوتی دے دئے اور ان کا دادا لے لیا۔اس کا اللہ دتہ اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔اب خیراں بچوں کو بھی پالتی اور ساری چوہدراہٹ سنبھالتی۔اس کے نزدیک بہووں کو بچے پالنے نہیں آتے تھے۔اب وقت کے ساتھ ساتھ بچے بڑے ہونے لگے اور کمرے چھوٹے۔دونوں بیٹوں نے پروگرام بنایا کہ ایک شاندار حویلی ۔جہاں سے زمیں شروع ہوتی ہے وہاں بنوائی جائے۔وہ جگہ اونچی بھی ہے اور آنے والوں کو بھی آسانی ہوگی۔حویلی  کے لئے شہر سے ایک ٹھیکیدار  کو بلایا گیا۔خیراں خوش تھی کہ اس کے بچے بھی اب بڑے زمینداروں اور چوہدریوں کی طرح رہیں گے۔
ایک شاندارڈبل منزل حویلی اللہ دتّہ ہاؤس کے نام سے تیار ہو گئی۔بیس کمرے،دالان،سٹورز اٹیچ باتھ، راہداریاں،اور نمعلوم کیا کیا اس میں بنوایا گیا۔تیار ہونے کے بعدپہلے قران خوانی اور پھر ایک شاندار دعوت عام دی گئی جس میں تین دن لنگرعام ہوتا رہا۔گائیں ایک کے بعد ایک کٹتی گئیں اور تندور دن رات چلتا رہا۔اس سے فارغ ہو کر سامان شفٹ کرنے کی باری آئی۔سال ہا سال کا  رکھا ہوا سامان چھانٹا گیا۔بہو بیٹے  پوتے پوتیاں یہ کام کرتے رہے۔ہر پرانی چیز کو یہ کہ کررد کردیا کہ کر اب اس کا زمانہ نہیں۔
اماں یہ کیا پرانا ٹرانسسٹر رکھا ہوا ہے۔اتنی مٹی اس میں گھسی ہوئی ہے،جراثیم اس میں سے کسی کو لگ جائیں گے۔بچے بیمار ہو جائیں گے۔
اماں یہ کیا اتنی الجھی ہوئی نلکیاں جمع کی ہوئی ہیں۔کون اب کپڑے سیتا ہے گھر میں اور ہر رنگ کی نلکی تو بازار میں مل جاتی ہے۔ان کا کیا کرنا ہے۔کون انہیں سلجھائے گا۔
اماں حد کر دی یہ پچاس سال پرانے ڈیزائن کے کپڑے آپ نے سنبھال کر رکھے ہیں آپ کے تو اب یہ آئیں گے بھی نہیں کسی کو دے دیتے ہیں ثواب ہوگا۔ ان کپڑوں کو دینے والی چیزوں کے ڈھیر میں ڈال دیا گیا۔خیراں ایک ایک کپڑے کو دیکھتی اور اسےیاد آتا کہ یہ سوٹ اللہ دتہ نے فلاں کی شادی میں جانے کے لئے لا کر دیا تھا۔یہ سوٹ کاکوں کی پیدائش والے دن لایا تھا۔یہ سوٹ اماں نے دیا تھا۔یہ میری شادی پر ماسی نے دیا تھا۔وہ تو چلی گئیں لیکن یادگار رہ گئی۔یہ چادر ابا ملتان سے لایا تھا۔غرض کپڑے ڈھیر میں گرتے گئے اسے ہوش ہی نہ تھا کہ بچے کیا کہ رہے ہیں وہ تو ماضی کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔
کاکے کے لئے جو گڈا اس کی ماں نے اپنے ہاتھ سے بنا کر دیا تھا ۔جس کی آنکھیں اور ناک منہ رنگین دھاگوں سے کاڑھ کربنایا تھا ۔کروشئے کا اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا ،میز پوش،ٹرانزسٹر کا پہلا کور،اللہ  دتہ کی پہلی ہنڈا کا اس کے ہاتھ کا سلا سیٹ کور جس پر بیٹھ کر وہ چوہدرانی بنی تھی ۔اور نمعلوم کیا کیا اشیاء اس دور کے حساب سے بیکار پائیں ایک ڈھیر کی صورت اختیار کرگئیں ۔اسے کیا اعتراض ہوتا۔جن کے لئے یہ سب کچھ تھا وہی ان کو پھینک رہے تھے تو پھینکیں۔اللہ دتا کے کھسےّ جنہیں وہ ہمیشہ سنبھال کر رکھتی تھی کہ نمعلوم کب کونسا مانگ لے۔سب بیکار ٹھیرے۔سامان شفٹ ہو گیا۔تمام لوگوں کا اپنا اپنا کمرہ ہو گیا۔
خیراں کو پیچھے کی جانب ایک کمرہ دے دیا گیا تاکہ اسے حویلی سے باہر بھینسوں کی دیکھ بھال کرنےکے لئے آنے  جانے  میں آسانی ہو ۔کتنے دن تو خیراں کو یہ جاننے میں لگ گئے کہ  کون سا کمرہ کس کا ہے۔جب اپنے کچے گھر میں تھی تو سارے پوتے پوتیاں بیٹےبہویں  سامنے ہوتے تھے۔اب سب اپنے اپنے کمروں میں ہوتے۔اسے یہ بھی پتہ نہ ہوتا کہ کون گھر میں ہے اور کون نہیں۔کسی بہو کا بند دروازہ بجاتی تو وہ کہتی اماں بچے سورہے ہیں آہستہ بجایا کرو۔دن میں کام کاج اور بھینسوں کے ساتھ اکیلی اور رات کو اپنے کمرے میں تنہا۔بچوں سے ملاقات کو ترستی۔ اس تنہائی میں وہ اللہ سے دعا کرتی کہ اب وہ اسے بھی اللہ دتہ کے پاس بھیج دے۔جینے کی امنگ ختم ہوچکی تھی۔ اس کا گھر اب ویران پڑا تھا۔یہ گھر اس کا نہ تھا  ،یہ تو بچوں کا گھر تھا جو اس کے گھر کو ویران کر گیا تھا۔ پہلے کی طرح کوئی درانتی مانگنے آتا تو خالی ہاتھ جاتا ۔خیراں کو پتہ ہی نہ چلتا ۔ دروازہ اس کے کمرے سے اتنی دور تھا کہ اسے آواز ہی نہ آتی۔وہ خود نہیں جانتی کہ کون آیا  تھااور خالی ہاتھ چلا گیا۔
ایک دن اس نے اپنے تمام گھر والوں کو کہا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے لوگ خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں۔لگتا ہےاس سال گندم کا بھی اللہ نام کا حصہ نہیں نکالا۔ ۔ تم لوگ نہیں جانتے کہ تمہارے باپ کے گھر سےغربت کے دنوں میں بھی کبھی کوئی سوالی خالی نہیں جاتا تھا۔ ۔بیٹا پہلے یہ حویلی، یہ زمینیں۔ ٹریکٹر،کاریں،ڈرائیور مزارعے کچھ نہیں تھا ۔دو ایکڑ سے تمہارے دادا نے زمینداری شروع کی تھی۔اپنے ہاتھ سے ہل چلاتا تھا۔زمین پر ننگے پاؤں پھرتا تھا کہ زمین ماں ہوتی ہے۔جب اپنا پورا مشکل سے ہوتا تھا تب بھی میں کسی سوالی کو واپس نہیں بھیجتی تھی۔مانگتے کیا ہیں کوئی اوزار یا کچھ گندم۔یا چند روپے۔ہمارے گھر میں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔ ۔یاد رکھو برکت جب ہی ہوتی ہےجب اللہ کے بندوں کو خوش رکھو۔ایک بیٹے نے کہا کہ اماں آپ کو پتہ ہے گندم کتنی مہنگی ہو گئی ہے۔خیراں نے کہا کہ دی کس نے ہے۔جس نے دی ہےاس نے بھا ؤ  بتایا ہے تمہیں ۔اس نے کیا اس میں اپنے بندوں کا حصہ نہیں رکھا جو تم نے نہیں نکالا۔یاد رکھو اگر یہی چلن رہا اس حویلی کا تو وہ دن دور نہیں جب اللہ ناراض ہو گیا تو تمہیں کوئی بھیک بھی نہیں دے گا۔
سب کا یہی خیال تھا کہ امی کو کسی ماہر نفسیات کو دکھایا جائے،وہ سٹھیا گئی ہیں یا بڑھاپے کا اثر ہے۔کوئی ملنے والی آتی تو ایک ہی رونا روتی کہ میرا گھر اب کہاں رہا۔میرا گھر تو وہ تھا جس میں میں روز پوچا لگاتی تھی۔جس کی ایک ایک چیز کا مجھے پتہ تھا۔اب تو مجھے ازار بند ڈالنے کے لئے بھی بہووں کے اٹھنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔فجر کے وقت جو چھاچھ بنتی تھی وہ اب دن کو گیارہ بجے بننے لگی۔کون  پئے   گا  اس وقت۔اب تو بس اللہ اٹھالے اپنے پاس بلا لے۔
گندم کے بعد چاول کی فصل برباد ہوئی تو خیراں کی بات یاد آئی۔سر جوڑ کر بیٹھے کہ اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں۔برکت ختم ہو گئی ہے۔خیراں نے اس کا ایک ہی حل بتایا کہ خیرات کرو۔
 رات کے کھانے پر  بیٹے نےبتایا کہ اماں پرانے گھر کی جگہ ٹریکٹر ٹرالی اور تھریشر کے رکھنے کی جہھ بنانی ہے۔کل اسے گرا دیں گے۔سن کر خیراں سناٹے میں آگئی۔
اس کا گھر گرادیں گے۔اس کی نیند اڑ گئی ۔وہ  رات کو اٹھی اور اپنے گھر کی جانب آگئی۔دیکھا کہ اس میں لوگوں نے غلاظت کی ہوئی ہے۔ اس کاکمرہ، اس کا گھر، اس کا گھروندہ جس میں پچھلے پچاس سال سے ہمیشہ صبح صبح ٹوٹے گھڑے میں پڑی ملتانی مٹی کا سوندھی سوندھی خوشبو والا  پوچہ لگاتی تھا۔جسے وہ ہر بارش سے پہلےمٹی  لیپ  پوت کر ساون کی برسات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتی تھی۔اس کی مٹی میں اس کے  ہاتھوں  کی حنا شامل تھی۔ اس کے گھروندے کی مٹی میں اس کے سہاگ کی محنت اور  پسینہ شامل تھا۔کس طرح اس کے اللہ دتہ  نے شادی کے اگلے دن نور کے تڑکے اٹھ کر مٹی گوندھی تھی اور بنیاد بنا کر کھیت میں چلا گیا تھا۔اس نے ابھی سہاگ کا جوڑا بھی نہ بدلا تھا کہ  اپنا گھرتیا رکرنے کی پڑ گئی تھی۔گارا اور مٹی کی جب اس نے اپنے ہاتھوں سے لپائی کی تھی تو بھوسا اس کی نرم انگلیوں میں گھس گیا تھا اور ان سے خون نکل نکل کر اس گارا میں شامل ہوتا رہا۔اس کے گھر کا یہ حشر۔آنسو نکل آئے۔کھجور کی بنائی ہوئی اس کے ہاتھ کی جھاڑو ایک کونے میں پڑی تھی۔ ساری غلاظت صاف کی اچھی طرح جھاڑو لگائی ۔کھالے سے دوپٹہ بھگو کرپانی لا کر ملتانی مٹی کے آدھے مٹکے میں ڈالا جب نرم ہو گئی تو پوری جھونپڑی میں پوچا لگایا۔مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سونگھتے وہ اپنے ماضی کے سنہرےدنوں کو یاد کر تےکرتے سو گئی۔آج بہت دنوں کے بعد ایسی نیند آئی تھی۔
منہ اندھیرےایک ٹریکٹر آیا اور  اس نے اس ویران کھنڈر کو گرانے کے لئےسپیڈ دی اور ایک ہی وار میں ڈھا دیا۔پھر اس کا ملبہ بلیڈ سے گھسیٹ کر دور ڈال دیا۔واپس ہوا تو دیکھا کہ دور تک خون کا نشان ہے۔سب کھنڈر گرا کر ملبہ ایک جگہ پھینک کر حویلی میں اطلاع دی کہ سارا کام کر دیا ہے۔بس صبح صبح کوئی جانور پہلی جھونپڑی میں تھا جو مارا گیا۔پتہ نہیں کیا تھا بہت خون نکلا۔حویلی والے صبح سے اماں خیراں کی تلاش میں تھے۔کچھ خیال آیا۔بھاگے ہوئے  ملبے  تک آئے  ٹریکٹر سے ملبہ ہٹوا کر دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
شمیم الدین غوری






2 comments: