Tuesday, October 5, 2021

کہانی دیسی ککڑ کی

کہانی دیسی ککڑ کی

            ہوا یوں کہ ہم دس دوست دو گاڑیوں میں  بلوچستان کے ایک خوبصورت علاقے کنڈ ملیر میں مچھلی کا  شکار کھیلنے گئے۔سارے شکارکا بندوبست حاجی  لّلو پہلوان کے ذمہ تھا ۔جس کے ابا  پہلے انڈیا میں پھر کراچی میں  ڈاکو تھے۔ایک رات کی کیمپنگ تھی۔ رات سے پہلے ہی پانچ افراد کہنے لگے ہمیں واپس جانا ہے۔تین  دیسی ککڑ  چولہے پر تھے۔ یہ فرمائش خاص طور پر ملّا حجتی کی تھی۔ورنہ ہماری پارٹی سمندر پر سی فوڈ ہی پسند کرتی ہے۔شام ہو رہی تھی۔ککڑ کا مصالحہ غلط تھا یا ہم اناڑی تھے یا ککڑ کسی احتجاج پر تھے اس لئےگلنے کو تیار نہ تھے۔حاجی للّو  پہلوان کا کہنا تھا کہ بس مغرب سے پہلے تیار ہو جائیں گے۔لیکن یہ افراد واپس جانے کے لئے اپنا سامان باندھنے لگے۔مغرب قریب تھی۔ حاجی لّلو نے بہت کہا کہ بس تیارہیں  لیکن   یہ لوگ سڑک سے  نیچے اترنے  کو تیار نہیں ہوئے ۔تھوڑا مشکل  راستہ  تھا۔مّلا حجتی کا رکنے کا ارادہ تھا سب کو اس نے کہا بھی کہ ککڑ کھا کر چلتے ہیں لیکن سب کو جلدی تھی۔ملاّ حجتی کو ککڑ روکتا تھا لیکن  میں نے کہا جو جس گاڑی میں آیا ہے اسی میں جائے  میری گاڑی میں جگہ نہیں ہے۔ آخر یہ لوگ  واپس چل دئیے۔بعد میں پتہ چلا کہ دو افراد تو گھر میں بتاکرہی نہیں آئے تھے۔اور ایک بیچارہ بیوی زدہ ہے۔ اس لئے رات کو نہیں رکے ۔ ان کی روانگی سے پہلے ککڑ گل کر تیار ہوگئے تھے۔یہ تین  فربہ دیسی  ککڑ ہم پانچ افراد نے دو وقت کھائے لیکن پھر بھی  بانٹنے پڑے۔چندے میں سب کے پیسے تھے ان میں بیچارہ  ملّا حجتی بھی  تھا۔

            جب سب واپس آگئے تو ملاّ حجتی نے مطالبہ کر دیا کہ ہم نے مرغا نہیں کھایا۔پیسے واپس دو یا کسی پروگرا م میں مرغا کھلاؤ۔اب جب  بھی شکار کا چھوٹا موٹا پروگرام گڈانی کا بنتا۔جس میں  حاجی للوّ  پہلوان مرکزی کردار ہوتے ہیں  انہیں ّملا حجتی کہتا کہ دیسی مرغا پکاؤ۔پارٹی کے دوسرے ممبر کہتے کہ بھئی چندہ کر لو اور پکا لو۔پارٹی میں دو افراد تو ویسے ہی مفت والے ہوتے  ہیں۔دونوں غریب اور کمزور  ہیں انہیں زبردستی لاتے ہیں۔۔یہ پرانے ساتھی ہیں کام بھی کر دیتے ہیں اور شکار بھی اچھا کرتے ہیں۔ایک سفید پوش ہے جو  بس گزارہ کرتا ہے۔اب پانچ آدمیوں میں بس تین ہی مرچ مسالوں  اور چاول روٹی میں چندہ ڈال کر کھانے والے رہ گئے۔ان میں ملّا حجتی کہیں کہ  میرا تو مرغا ادھار ہے۔ حاجی للّو کہیں کہ مرغا ریڈ میٹ ہے۔میں بیماری خرید کر نہیں کھاتا۔مفت کی کھا لیتا ہوں۔ اب ملاّ حجتی نے مجھے کہا کہ  دیسی ککڑ  میں شامل ہوجاؤ میں نے کہا ٹھیک ہے۔میرا خیال تھا کہ تین چار آدمیوں میں میں بھی شامل ہوجاتا ہوں۔میں کبھی کبھار  ان لوگوں کی شکار پارٹی میں  بطور مہمان چلا جاتا ہوں کچھ کولڈ ڈرنک  تازہ روٹیاں وغیرہ یا پھل لے جاتا ہوں۔جب انہوں نے مرغا خریدتے وقت مجھے بتایا کہ بس  آپ ہی ا س میں شامل ہیں اور کوئی پیسے نہیں دے رہا تو میں نے انکار کردیا۔اب یہ قصہ سال بھر چلتا رہا کبھی ککڑاس کی گردن پر تو کبھی اس کی گردن پر۔لیکن  دیسی ککڑ کسی کی گردن پر فٹ نہیں ہوا۔ اس دوران رشید  صاحب بھی میرے ساتھ بطور مہمان جانے لگے وہ بھی اچھا خاصہ خرچ کر دیتے  ہیں۔

            ککڑ ککڑ سن کر  کان پک گئے تھے۔ملا حجّتی کو بس  دیسی ککڑ کھانا تھا۔ہر وقت ککڑ کے پلان۔ طرح طرح کےپلان اور مشورے۔ایک مشورہ دیا کہ ہر پروگرام میں  سے تھوڑے سے پیسے بچا کر رکھتے جاؤ اور ایک پروگرام میں مرغا کر لو۔پارٹی میں خرچ کرنے والے بھی ایک دو آدمی ایسے تھے جن کے لئے   ایک کیا دس دیسی ککڑ  بھی کوئی بوجھ نہیں ۔لیکن  سب ملا حجّتی سے مزے لے رہے تھے۔ملا حجّتی نے ایک دن پھر مجھے کہا کہ دیسی ککڑکا پلان ہے۔آپ کھائیں گے۔میں نےہاں کردی۔اب کہنے لگے کہ آخری تاریخیں ہیں۔آپ خرچ کر لیں کچھ رشید صاحب کو شامل کر لیں۔میں نے  ساری بات رشید صاحب کو بتائی وہ کہنے لگے بھائی بہت دن ہو گئےسنتے سنتے ملاّ حجتی کو مرغا کھلا ہی دو۔سارا خرچ میں دے دیتا ہوں۔غرض ہم دونوں نے سارا خرچ برداشت کر لیا۔ملّا حجتی ایک بار پہلے بھی حساب کتاب میں  گڑ بڑ کرتے پکڑے گئے تھے اور پارٹی میں کرپشن میں بدنام تھے۔اس بار بھی سب کا متفقہ  خیال  تھا کہ مرغا  خریدنے میں کرپشن کی  ہے واللہ  عالم۔

            ساری پارٹی رات سےگئی ہوئی تھی۔شدید سردی تھی سب کا برا حال ہوا۔کچھ مچھلی لگی اور انہوں  نے پکاکر رات میں کھالی۔میں اور رشید صاحب حسب معمول تازی روٹیاں لے کراگلے دن   دوپہر  میں  پہنچے۔ تھوڑی دیر میں مرغا تیارہو گیا۔زبردست خوشبو آرہی تھی۔ملا حجتی نے تیار کیا تھا۔ مرغا  چولہے سے اتار کر چاول پکانے رکھ دئیے۔انہوں نے سب کو نکال کر دیا ۔کہنے لگے  سب کھا لیں،میں خمیری روٹی نہیں کھاتا چاول سے کھاؤں گا۔سب نے کھایا۔خوب نکال نکال کر دیا۔بقول حاجی  لّلو کے ملاّ حجتی نے رانیں اپنے لئے بچا لیں۔مجھےاور رشید صاحب کو  جلدی آنا تھا۔کھاناہم کھا چکے تھے۔اجازت لی اور چل دئیے۔خوشی ہوئی کہ ملّا حجتی کا ادھار اور خمار اتر گیا۔

            ابھی ہم حب چوکی پہنچے تھے کہ حاجی  لّلو کا فون  آیا۔کہنے لگا۔کہیں رک کر فرصت سے فون کرو۔ ہم چائے پینے رکے اورحاجی   لّلو کو فون کیا۔کہنے لگے۔آپ ادھر گئے، ہم  سب پانی میں شکار کھیلنے چلے گئے،ملا حجتی  چاول دم پر لگا کر ٹہلنے نکلے۔پیچھے سے کتوں نے ہنڈیا گرادی اور کھا گئے۔

            ہائے رے یہ انجام  دیسی ککڑ کا۔اور یہ پشیمانی مّلا حجتی کی۔اب جب بھی دیسی ککڑ کانام آتا ہے ملا حجتی منہ دوسری طرف کر لیتا ہے۔داستان تو منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔علاقے کے لوگوں نے اس کا نام ہی ملّا کّکڑ رکھ دیا ہے۔اب تومیدان دور دور تک صاف ہے  دور بین سے بھی کہیں کوئی ککڑ نظر نہیں آرہا۔

اس ساری کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ جس نے بھوک کے وقت تیار کھانا ٹھکرایا اس کو کھانے نے بھی ٹھکرایا۔