Friday, June 12, 2015

پوپری: نصف صدی پرانی ایک زندہ کہانی



شمیم الدین غوری کے کی بورڈ سے . . .


فقیرا  ڈاکو
        اس سے برداشت نہ ہوتا تھا کہ کوئی اس  کے ماں باپ  کی بے عزتی کرے۔ چھوٹا سا  تھا دیکھتا کہ  روز روز بنیا آکر رقم کا مطالبہ کرتا ہے  گالیاں دیتا ہے   اور بے عزتی کرتا ہے۔کیا کرتا صرف اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہتا۔ اس رقم کا جو اس کے پیدا ہونے پر بڑے ہسپتال کے اخراجات کے لئے اس کی ماں نے لی تھی۔نمعلوم کتنی رقم دے چکے لیکن بیاج پر بیاج اور بے عزّتی الگ۔یہ سب دیکھتے اس کی جوانی آگئی۔
ماں کواس کی  شادی کی سوجھی۔ ایک بار پھر  بنیے کے در پر گئی اور اس کی شادی ہو گئی۔
دو ساون گزر گئے۔
ُ  ُلالہ جی  تمہاری بہو کو بڑے ہسپتال لے جانا ہے۔اس کے باپ کے وقت بھی تم کام آئے تھے۔اب پھر مہربانی کرو۔ اس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ڈاکٹرنی نے کہا ہے کہ اب جلدی شہر کے ہسپتال لے جاؤ ورنہ ماں اور  بچہ دونوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔”


ُ  ُجا جا  میرے پہلے پیسے ہی ابھی تک نہیں آئے اور تو اور مانگنے آگئی۔ زمین کے کاغذ لے آ انگوٹھا لگا اور پیسے لے جا۔”پورا دن ماں اس کی منت کرتی رہی لیکن کام نہ بنا۔ زمین کے کاغذات اس کے دادا کے پاس تھے جو وہاں نہ رہتا تھا۔
رات ہو گئی۔بیوی کی چیخیں فقیرا سے برداشت نہ ہوئیں۔وہ اٹھا اور سیدھا بنیے کے گھر گیا۔کلہاڑی کا ایک وار ہی کافی ہو گیا۔رقم ماں کو  دے کر  شہر روانہ کیا اور خود کچے کی راہ لی۔
گاؤ ں کا بزدل سا لڑکا  فقیر محمّد اب فقیرا ڈاکو بن چکا تھا۔ اس کی ماں سے اب کوئی بنیا پیسے مانگنے نہ آتا تھا۔بنئے کی دکان وہی تھی اب اسکا بیٹا بیٹھتا تھا  لیکن اب راشن کے پیسے مانگنے کی کسی کی میں ہمت نہیں تھی۔زمینداروں سے چاول کی بوریاں محبت اور تحفے میں آجاتیں۔ٹریکٹر والا محبت میں ہل چلا دیتا۔دوسرا بنیا کھاد اور بیج گھر بھیج دیتا۔ محلے پڑوس کے لوگ بھی ان کا خیال رکھتے۔ فقیرا کا باپ اب اپنے علاقے کا اہم آدمی تھا جس کو خوش رکھنے کی ہر شخص کوشش کرتا۔
فقیرا ڈاکو فقیرا ڈاکو ، پہلے تحصیل پھر ضلع اور پھر صوبے  میں یہ نام گردش کرنے لگا۔علاقہ پولیس کی ناک میں دم آگیا۔ انعام رکھا گیا۔ پورے صوبے میں مشہور ہو گیا۔آخر ایک دن پکڑا گیا۔مقدمات چلے۔سزا ہوئی۔بنیے نے پچھلے کئی سال کا حساب مانگ لیا۔کھاد اور بیج والا بھی آ گیا۔ ٹریکٹر والے نے بھی چکر لگانے شروع کئے۔ محلے والوں کا رویہ تبدیل ہو گیا۔چاول کی بوریاں بھی  آنی بند ہو گئیں۔ساری محبتیں تمام ہوئیں۔
پورے ملک کے اخبارات اور ریڈیو میں ہیڈ لائن آئی کہ فقیرا ڈاکو جیل توڑ کر اپنے تمام ساتھیوں سمیت فرار ہو گیا۔اسی دن  بنیے نے آکر حاضری دی،دوسرے دن چاول کا تحفہ آ گیا۔ کھاد بیج والے کا پیغام بھی آگیا کہ کتنا چاہئے ۔ فقیرا ڈاکو نے ایک ڈاکو اتحاد بنایا کہ اگر اس طرح کسی کی گرفتاری کے بعد گھر والوں سے لوگوں کا رویہ تبدیل ہوگا تو کیسے کام چلے گا۔کلہاڑی  کی قسم کھا کر طے ہوا کہ اگر ایک دھاڑیل بند ہوگا تو دوسرے اس کے گھر کا خیال رکھیں گے ۔ دو تین ساون  اور گزر گئے۔
اب کہ اخبارات میں پہلے سے بڑی سرخیاں تھیں کہ  فقیرا ڈاکوزخمی حالت میں پکڑا گیا۔ان سرخیوں نے اسے پورے ملک میں مشہور کر دیا۔ وہ اس مقابلےمیں ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ اس مرتبہ اسے ایک لمبی سزا ہوئی۔ ساون گزرتے  گئے اور وہ لوگوں کے ذہنوں سے معدوم ہوتا گیا۔
-------------------------------------000----------------------------------------------
گڑیا کی اپنے ابا سے آخری ملاقات
 ُ  ُبیٹا کئی دن ہو گئے ہیں ہسپتال میں، کسی وقت گڑیا کو بھی لے آؤ۔ زندگی کا بھروسہ نہیں ۔ پتہ نہیں میرے بعد اس کا کیا ہوگا۔ تمہیں پتہ ہے وہ میری سب سے چھوٹی بیٹی ہے اور بہت لاڈلی ہے مرنے سے پہلے ایک بار مل لوں۔پیار کر لوں”
ُ ُ ابا آپ بھی کمال کرتے ہیں۔سارا گھر آپ کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔علاج کرا رہے ہیں ۔اور آپ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں۔ہسپتال میں دس طرح کے جراثیم ہوتے ہیں، اگر وہ بیمار ہو گئی تو کیا ہوگا۔ ویسے بھی ماموں کہتے ہیں لڑکیوں کو  ہسپتال نہیں لےجانا چاہیے۔”
ُ  ُکونسی اتنی بڑی ہو گئی ہے۔ابھی چھٹی جماعت میں تو ہےاور کون سی ایسی آفت آرہی ہے جو اسے  میرے پاس لانے سے کترا رہے ہو۔”
ُ  ُ اجی کیوں بچے کو ڈانت رہے ہو۔ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ بیمار ہو گئی تو اور لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ایک مصیبت تو پہلے ہی آئی ہوئی ہے تم اور دوسری کھڑی کرا دو۔”
ُ  ُ ہاں بیگم  چند دن  اور رہ گئے ہیں۔انشااللہ اس مصیبت سے جان چھٹ جائے گی۔ایک بات جان لو کہ جب تک گڑیا کو نہیں دیکھ لوں گا  جان نہیں نکلے گی۔”
ُ  ُایک تو ملنے آؤ  اوپر سے جلی کٹی سنو۔ بڑھاپا آگیا بک بک کی عادت نہیں گئی۔”
ُ  ُبیٹا  ماں کی اور ماموں کی سننے کے لئے بہت زندگی پڑی ہے، ابھی میری سن لو کل ہر حالت میں میری گڑیا کو اسکول سے واپسی پر میرے پاس لے کر آؤ۔جب تمہاری بیٹی ہوگی تب تمہیں بیٹیوں کی قدر ہوگی ،ابھی تم ناسمجھ ہو۔باپ بیٹی کا رشتہ نہیں جانتے۔”
دوسرے دن
ُ  ُ           گڑیا بیٹا کیا حال ہےیہاں آؤ میری گود میں بیٹھو ۔اسکول سے چھٹی تو نہیں کر رہی ہو”
ُ ُ پاپا میں ٹھیک ہوں۔بھائیجان مجھے اسکول لے کر نہیں جاتے۔اس ہفتے تین چھٹیاں ہو گئیں۔مس بھی ناراض ہو رہی تھیں۔مس نے مجھے آج تک کچھ نہیں کہا تھا،جب سے آپ ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں میری کتنی ہی چھٹیاں ہو گئی ہیں۔ اب مس مجھے روز ڈانٹتی ہیں”
ُ  ُکیوں بھئی اسلم، یہ کیا سن رہا ہوں،ایسا مت کرو۔لڑکیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔لڑکا  ان پڑھ ہو تو کسی جگہ مزدوری کر لے گا۔لڑکیاں تو سڑک پر مزدوری کرنے سے رہیں”
ُ  ُ پاپا آپ اسکول سے واپسی پر مجھے بر گر ،کبھی سموسہ ،کبھی چاکلیٹ دلاتے تھے۔بھائیجان تو کچھ بھی نہیں دلاتے،بس کہتے ہیں چپ رہو چپ رہو۔”
ُ  ُ گڑیا بیٹا میں ٹھیک ہو جاؤں پھر سب کچھ دلایا کرونگا۔تم ابھی بہت چھوٹی ہو۔میری بات سمجھ نہیں آئے گی۔ میں ایک بات تمہیں لکھ کر دے رہا ہوں اسے سنبھال کر رکھنا جب بڑی ہو جاؤ گی تب تمہیں یہ سمجھ آئے گی۔لاؤ بیگ سے کاپی نکالو۔”
ُ  ُ ابا اس کا کیا مطلب ہے کہ جس کام کو صحیح  سمجھنا  اس پر ڈٹ جانا خواہ کتنی بھی مخالفت ہو۔”
ُ  ُ   گڑیا بیٹا میں نےکہا نا کہ اس کا مطلب بڑے ہو کر سمجھ آئے گا۔دیکھو یاد رکھو ہمیشہ بڑوں کی عزت کرنا اور میرے بعد اپنی امی کا کہا ماننا۔”
ُ  ُپاپا  آپ کہاں  جا رہے ہیں”
ُ  ُ کہیں نہیں بیٹا ویسے ہی کہ رہا تھا۔ میری اچھی گڑیا یہ لو دس روپے ان سے اپنی پسند کی چیز کھا لینا”
 یہ گڑیا سے ان سے آخری ملاقات تھی۔ اگلے دن ان کا انتقال ہو گیا۔ محبت کی تمام داستانیں باقر علی کے انتقال کے ساتھ گڑیا کی آئندہ زندگی کے لئے بند ہو گئیں۔ ان کی محبت ان کا پیار ان کا لاڈ ان کا رویہ اس   کی ساری زندگی کے لئے حوصلہ بخش رہا۔ زندگی کے ہر مشکل موڑ پر جب ا س کے  خیالات تتر بتر ہوجاتے ، جب غم سے نڈھال ہو جاتی ،جب پریشانیاں گھیر لیتیں ۔جب کچھ نہ سوجھتا تو ان کی محبت اور شفقت کی خوشیوں بھری یادیں اس کے دل کو ڈھارس دیتیں  اور ان سے حوصلہ پا کر دل پر سکون ہو جاتا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس کے پاس کھڑے ہیں اور سر پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ دے رہے ہیں۔انسانی نفسیات ہے کہ وہ کبھی سورج میں کبھی  چاند میں کبھی بتوں میں کبھی آگ میں کبھی پیروں مریدوں  اور مزاروں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔  گڑیا کا  بت،اس کاپیر فقیر،اس کا سورج اس کا چاند سب کچھ بس  اس کےابّا کی یاد تھی۔کچھ تو ان کی باتیں یاد آتی تھیں  اورکچھ اس کے ننھے سے دل نے گھڑ کر ان سے منسوب کر لی تھیں۔بالکل ایسے جیسے وہ  سامنے کھڑے کچھ کہہ رہے ہوں۔زندگی میں جوں جوں  پریشانیاں آتی گئیں  توں توںاس کی ان سے وابستگی بڑھتی گئی
-------------------------------------------------------------------------
ُ  ُ اس کمبخت میں جان اٹکی ہوئی تھی۔منحوس کہیں کی۔اس نے لگائی لترائی کی اور صدمے سے ان کی جان نکل گئی”
ُ  ُ میری شکایتیں کر رہی تھی سکول لے کر نہیں جاتے۔ان سے بیماری میں برداشت نہیں ہوا۔”
گھر رشتہ داروں سے بھرا ہوا تھا سب سوئم کا کھانا کھا کر ڈکار رہے تھے۔ماشااللہ کھانا اچھا  پکوایا۔ کھیر تو بہت اچھی تھی ان کو بہت پسند تھی۔مرحوم کی روح خوش ہو گئی ہوگی۔اور نہ جانے کیسے کیسے جملے گڑیا کے کان میں پڑ رہے تھے۔ وہ  اپنے ہی  خیالوں میں گم تھی۔کون اسے سکول  لے جائے گا، کون اب برگر دلائے گا،کون اسے روز رات کو کہانی سنائے گا۔اسے تو موت کا تصور ہی معلوم نہ تھا۔اسے منحوس کے معنی بھی نہیں معلوم تھے۔اس کے پاپا ہوتے تو معلوم کرتی کہ پاپا یہ منحوس کسے کہتے ہیں۔
ُ  ُ او منحوس کیا کان میں روئی بھری ہوئی ہے۔سنتی نہیں ہے۔کیا منہ بسور کے بیٹھی ہے۔ کیا تیر ا باپ مر گیا ہے۔یہاں آ یہ برتن اٹھا کے باورچی خانے میں رکھ ”۔اسے یہ آواز کہیں دور سے آتی معلوم ہوئی۔
 باجی کی آوازُ  ُ  ُ آئی اماں ایسے تو نہ کہو۔اس کے بھی ابا تھے۔اسے کیا غم نہیں  ہوگا۔وہ پہلے ہی پریشان ہے ،آپ اور کچھ کچھ کہ رہی ہیں۔”
ُ  ُ ارے نہ یہ ہسپتال  جاتی نہ ان کا  اسی دن دم نکلتا”
ُ  ُ چھوڑو اماں موت کا تو وقت معیّن ہوتا ہے۔یہاں آؤ  گڑیا ۔”
تین دن میں یہ پہلی آواز تھی جو اس کے دل کو بھا گئی۔باجی سے مل کر اتنا روئی اتنا روئی کہ سب رو پڑے ۔ُ  ُباجی اب مجھے کون اسکول لے کر جائے گا۔”
ُ  ُ  گڑیا، میں تمہیں سکول لے کر جاؤں گی۔ ”  ُ  ُ اماں گڑیا کو میں اپنے گھر لے جارہی ہوں۔اسلم سے اس کے کپڑے بھجوا دینا۔”
ُ  ُ میں نہیں جاؤنگی،میں ابا کے بستر پر سوؤں گی  ۔وہ آئیں گے تو مجھے ڈھونڈیں گے۔میں نہیں ہونگی تو پریشان ہونگے۔کیا پتہ وہ اللہ میاں کے پاس سے کب آجائیں”
ُ  ُ   گڑیا  اللہ میاں کے پاس سے کوئی واپس نہیں آتا۔ابّا اب وہیں رہیں گے تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں سکول لے کر جا ؤ نگی۔ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گی۔
ماموں کا ابّا بن جانا
 تین سالوں میں گڑیا نے بہت کچھ جان لیا ۔اس کےبھائی جان کی شادی ہو گئی وہ گھر چھوڑکر الگ ہو گئے۔جو ماموں تھے وہ اب اس کے ابا بن گئے۔اسے تو وہ روک ٹوک کی وجہ سے پہلے ہی ناپسند تھے  اور اب جب انہیں ابّا کہنے کی باری آئی تو اس کے منہ سے نہ نکلا۔وہ انہیں ماموں ہی کہتی رہی۔اب وہ  صرف باجی کی گڑیا تھی۔باقی سب کے لئے وہ شاہین تھی اور سکول میں شاہین باقر علی۔اب مشکل ترین وقت وہ آیا کہ باجی کا خاندان سعودیہ شفٹ ہو رہا تھا۔اسے ماموں سخت ناپسند تھے۔اب مجبوری تھی کہ وہ اماں کے پاس رہے۔اماں کے گھر آتے ہی ماموں کا حکم ہوا کہ لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھنا چاہئےبس گھر بیٹھو۔اس نے نویں کا امتحان دیا ہوا تھا۔بمشکل دسویں تک پڑھنے کی اجازت ملی۔اب وہ چھٹی جماعت کی چھوٹی گڑیا نہیں تھی۔ بہت کچھ جان چکی تھی۔ جو دال میں کالا تھا اس کی بناء پر ہی بھائی گھر چھوڑ گئے۔ کچھ تو رشتہ داروں کی باتیں اس نے سنیں اور کچھ باجی نے بھی اسے جانے سے پہلے بتایا۔اب اسے اس ماموں سے سخت نفرت ہو گئی۔ایک گھر میں رہتے ہوئے۔وہ اس کا سامنا نہ کرتی۔اپنے معاملات میں ماموں کو دخل اندازی کی اجازت نہ دیتی اس پر روزانہ جھگڑے ہوتے۔ماں کی شخصیت سے اس کا  اعتبار اٹھ گیا تھا۔
----------------------------------------------------------------------00000000----------------------------------------------------------------------------------------------------
ُُ  ُ آخر یہ جھگڑا کیا ہے روز روز کیوں تماشہ ہوتا ہے۔شاہین تم تمیز سے اس گھر میں نہیں رہ سکتیں؟ ”سب سے بڑے بھائی نے کہا
ُ  ُ بھائی جان آپ سب کچھ جانتے  ہیں ،یہ شخص جو پہلے  آپکا ماموں تھا اور اب آپکا  ابا  ہے  ،یہ میرے معاملات میں کیوں ٹانگ اڑاتا ہے۔میں سیدھی سکول جاتی ہوں اور آجاتی ہوں۔کام سارے کرتی ہوں۔کھانا پکانا ،کپڑے دھونا،صفائی کرنا۔سب کچھ کرتی ہوں۔ان کا کیا  حق ہے کہ یہ مجھے ہاتھ لگائیں تھپڑماریں۔مجھےکبھی میرے سگے باپ نے ڈانٹا تک نہیں اور یہ مجھے تھپڑ ماریں۔”
ُ  ُ دیکھا صادق یہ کتنی بدتمیز ہے۔اسے بڑے چھوٹے کا لحاظ نہیں ،یہ ٹھیک سے رہے تو رہے   ورنہ میں اسے گھر سے نکال دونگا۔”
ُ  ُ ماموں یہ بات تو آپ رہنے دیں۔یہ اپنے باپ کے مکان میں رہتی ہے، یہ آپکے مکان میں نہیں رہتی آپ اس کے مکان میں رہتے ہیں ۔ابا کی پنشن اس کے نام ہے۔۔آپ اس کا کھاتے ہیں یہ آپکا نہیں کھاتی ۔”
ُ  ُشاہین تم کیوں بڑوں کی بات نہیں سنتیں۔جب اس گھر میں رہنا ہے تو مل جل کر رہو۔
ُ  ُ اسلم  اسے سمجھا دو اگر اس کی بدتمیزیاں ایسے ہی رہیں تو میں جان سے مار دونگا۔میں ذات کا پٹھان ہوں۔الٹی پلٹی باتیں برداشت نہیں کر سکتا۔”
ُ  ُماموں بس کریں بس ،میں بھی آپکو بتا دوں کہ  جو ہو گیا وہ ہو گیا آئندہ ہرگز شاہیں کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ  پھر مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔”
ُ  ُبیٹا صادق یہ تمہارے ابا ہیں کیسے بات کر رہے ہو۔”
ُ ُ  ُ اماں آپ ہی ان کی سنیں۔ابا کی زندگی میں یہ تصّور تھا کہ یہ ہمارے ابا بنیں گے؟  رہی شاہین کو جان سے مارنے کی بات تو ایسا نہ ہو کہ اب میں ابا کے قتل کا کیس درج کرا دوں”۔ُ ُ اماں اس شخص  نے ہمارے گھرانے کو تباہ کردیا۔اور آپ ان کے ساتھ ساتھ شامل تھیں ۔آپ کی محبت میں ہم اسے برداشت کر رہے ہیں ورنہ حقائق کون نہیں جانتا”۔
ماموں دہاڑے ُ  ُ صادق چلے جاؤ میرے گھر سے دوبارہ مت آنا۔”
  ُ  ُماموں غصہ نہ کریں۔مل جل کر رہیں۔ویسے میں آپکے گھر نہیں آتا اپنے باپ کے گھر آتا ہوں۔گڑیا سے آپ شفقت سے پیش آئیے ،چھوٹی ہے   ناسمجھ ہے،پھرہے کتنے دن کی  اس کی شادی ہوگی تو چلی جائے گی”
ُ  ُ بھائی جان ایک بات اور ان کو سمجھا دیں کہ میں بچہ نہیں ہوں۔مجھےان کا رات کو میرے کمرے میں آنا اور ہاتھ لگانا برداشت نہیں ۔یہ تو مجھے کیا قتل کریں گے ایسا نہ ہو کہ یہ قتل ہوجائیں۔
گڑیا کی تعلیم
        ُ  ُ اماں اماں دیکھو اخبار میں میرا رول نمبر آیا ہے۔ میں اے ون گریڈ میں پاس ہو گئی ہوں۔اب میرا داخلہ انشااللہ اچھے کالج میں ہو جائے گا۔”
ُ  ُ مبارک ہو۔ چلو اب پڑھائی سے فارغ ہوئیں ،اب تمہاری شادی کر دیتے ہیں۔تمہارے ابا بھی کہہ رہے تھے کہ لڑکیوں کو بس دس جماعت پڑھانا کافی ہوتا ہے”۔
ُ  ُ اماں یہ میرے ابا نہیں ماموں ہیں۔میرے پاپا تو کہتے تھے کہ میری بیٹی خوب پڑھے گی۔ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بنے گی۔ میں کہتی تھی کہ مس بنوں گی،بچوں کو پڑھا یا کروں گی”
کالج میں داخلے کا وقت آیا تو ماموں نے کہا کہ اس کی تو اب شادی کرو کہاں کالج کی بات کرتے ہو۔ بس اس کو اس کے گھر بھیجو،رخصت کرو۔لڑکیاں زیادہ پڑھ جائیں تو رشتے نہیں ملتے ماموں کی شخصیت ایسی تھی جیسے چنگیز خان کو چرس پلا کر ڈبلیو گیارہ کی کوچ کا ڈرائیور بنا کر بٹھا دیا ہو۔ اماں ان کی ہاں میں ہاں ملاتی جاتیں۔میں نے دبے لفظوں میں آگے پڑھنے کا اراد ہ کیا تو اماں نے صاف منع کر دیا۔بہت حوصلہ کر کے  بہت ڈرتے ڈرتے ماموں سے کہا تو صاف منع کر دیا۔میں نے رو رو کر بر ا حال کر لیا۔اچانک ابا جان نے حوصلہ دیا ۔نمعلوم ابا جان کہاں سے میری ہر مشکل میں آجاتے تھے۔میں نے صبح اٹھ کر  اعلان کر دیا کہ میں کالج جا ؤں گی۔کوئی مجھے نہیں روک سکتا۔بڑےبھائی اماں ماموں سب نے مجھے ڈرایا ڈانٹا ایک دو تھپڑ بھی لگائے۔ ماموں کا ایک جملہ دل کے پار ہوگیا کہ خود تو مر گیا اور مصیبت ہمارے گلے ڈال گیا ۔لڑکیاں اپنے مامو ؤ ں کا ذکر کتنی محبت سے کرتی تھیں اور میرے ماموں کیسے تھے ۔ خیرمیں نے چیخ چیخ کر ہذیانی کیفیت میں  سارا محلہ اکٹھا کر لیا۔کچھ نے مجھے سمجھایا اور کچھ نے انہیں سمجھایا۔بڑے بھائی جان تھوڑی مزاحمت کے بعد میری حمایت میں بولے اور آخر کار میر ا داخلہ کالج میں ہو گیا۔اگلے پانچ سال میں میں نے بی ایس سی  کیا۔بی ایڈ کرنے کے بعد مجھے ایک سرکاری سکول میں نوکری مل گئی۔بہت سی استانیاں اس سکول میں تھیں۔ سب کہتی تھیں کہ اب تمہاری شادی ہو جانی چاہئے۔یہ بات میری سمجھ میں بھی آتی  تھی۔

پکوڑے روٹی سے شادی
                ماموں نے اماں کو بتایا کہ ایک نسلی پٹھان لڑکا  مل گیا ہے۔ماموں بھی نسلی پٹھان تھے۔ شائد ہزار سال پہلے ان کے آباؤ اجداد پٹھان رہے  ہونگے۔بس ہر وقت پٹھان  پٹھان کرتے تھے اور اب نسلی کیا اصلی پٹھان رشتہ مل گیا۔ہمیں تو اتنا پتہ تھا کہ پٹھان یا تو کمر پربوری میں اخروٹ بیچتے ہیں یا بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔بچپن میں سب یہی کہتے تھے باہر نہ نکلنا پٹھان اٹھا کر لے جائے گا۔بہت خوف آیا کہ پٹھان کیسا ہوگا۔ بندوق نکال لے گا یا چاقو مار دے گا۔ اس کا ذکر ساتھی اساتذہ سے کیا تو بہت مذاق اڑا۔سب نے کہا کہ ڈاکٹر جیسا رشتہ کہاں ملے گا۔سب کہتیں تمہاری تو قسمت چمک گئی۔جلدی سے شادی کر لو کہیں ڈاکٹر صاحب مس نہ ہو جائیں۔ قدرتی طورپر مجھے بھی اس بات کی خوشی تھی کہ اچھا رشتہ ہے۔
                بہرحال خوف اور خوشی کے درمیان میری شادی ہو گئی۔خانصاحب سوزوکیوں میں بارات لے کر آئے خوب فائرنگ کی جس سے میں انتہائی خوفزدہ ہو گئی۔ایک کھلی سوزوکی میں ایک ڈولی میں مجھے بٹھایا  پشتو شہنائی اور ڈھول کی  کان پھاڑ بھیانک آواز میں مجھے لے کر چل دئے۔اگرچہ ہمارے خاندان میں سجی ہوئی کار کا رواج تھا لیکن رواج تو اب لڑکے والوں کا چلے گا۔کیماڑی کی تنگ گلیوں میں جہاں سوزوکی بھی نہیں جاسکتی تھی ڈولی کو اٹھا کر ایک کمرے کے بدبو دار تنگ مکان میں پہنچا دیا گیا۔یہاں ایک کمرہ جس میں عورت مرد بری طرح بھرے ہوئے۔کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔سب پشتو میں بات کر رہے تھے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ لڑائی ہو رہی ہے یا کوئی مبارکباد ہو رہی ہے۔ میں ہر ایک کو خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ ان میں میرا شوہر کونسا ہے۔ سارے ہی اچھے کپڑے پہننے ہوئے تھے اور سب کے کئی کئی گز کے صافے طرّے اور پگّڑ بندھے ہوئے تھے۔سب کے گلے میں ہار تھے۔اس خوفزدہ ماحول ،حبس میں سانس گھٹنے اور پریشانی میں میں نیم بے ہوش ہو گئی۔ نظر کچھ نہیں آرہا تھا۔کچھ کچھ سنائی دے رہا تھا۔میرا منہ کھول کر کسی نے کچھ ڈالا جس سے میرے باقی ہوش بھی اڑ گئے اور میں بالکل بے ہوش ہو گئی۔ ہسپتال میں جب ہوش یا تو منہ میں گوبر جیسی شے کا احساس ہوا۔تھوکا تو لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ شکل سے تو پڑھی لکھی لگتی ہو اور نسوار کھاتی ہو۔ میرے اند ر جواب دینے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ نسوار کی خرابیاں گنوا رہی تھیں اور میں سن رہی تھی۔ایک شخص نے کہا کہ اس کو چھٹی دو ہمیں ٹرین پکڑنی ہے۔میں نیم بےہوشی میں ٹرین میں بیٹھ گئی برتھوں پر ایک موٹی چادر تان دی گئ ۔ ایک شامیانہ نما برقع مجھے پہنا دیا گیا ۔جس میں دم گھٹ رہا تھا۔پہلے ہی سانس نہیں آرہا تھا  اوپر سے یہ کنٹوپ برقع۔ لگتا تھا رینجرز کسی مجرم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جارہے ہیں۔شادی تھی یا اغوا بالجبر ۔مجھے تو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ یہ مجھے مُلک  لے جائیں گے۔ٹرین میں واش روم جانے کی ضرورت پڑی تو ایسے باجماعت لے جایا گیا جیسے پوری گارڈ کسی  گارڈ آف آنر پر نکلی ہو۔اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں میرا پتی بھی ہے لیکن ناکامی، کیسے پہچانتی۔
صبح سے چلتے چلتے دوپہر ہو گئی حلق میں کانٹے پڑ گئے۔جس گلاس کو  بچے گندے گندے ہاتھوں سے کولر میں غڑاپ غڑاپ ڈال رہے تھے اور نیچے گرا کر دوبارہ  کولر میں ڈال رہے تھے وہ سلور کا بابا آدم کے زمانے کا گلاس تھا جس میں  پانی پینا تو کجا واش روم میں بھی استعمال کرنا کسی شریف آدمی کے بس کا نہ ہوتا۔اوپر سے پکوڑے روٹی وہ بھی پلیٹ فارم کے خریدے ہوئے زبردستی کھلا دئیے جو گلے میں اٹک گئے۔ناچار واش روم جاکر ہاتھ سے پانی پینا پڑا کہ یہ کم از کم اس غڑاپ واےپانی سے تو صاف ہوگا۔ رات کو پھر پکوڑے روٹی۔صبح پھر پکوڑے روٹی ۔ نمعلوم کس سٹیشن پر اتر کر بس میں بیٹھے ۔مزید چھ گھنٹے بس کے سفر کے بعد ایک ویرانے میں اتر کر پیدل پیدل۔پہاڑی راستہ پھر چھوٹی سی ناہموار  پگڈنڈی ادھر ادھر پتھر اور جھاڑیاں اور میرا شامیانے میں وہ حال کہ جیسے کوئی اندھا ٹٹول ٹٹول کر چل رہا ہو۔کتنی مرتبہ تو گری اور کتنی مرتبہ لڑھکی۔اللہ سے بس موت کی دعا مانگتی رہی۔ کسی پہاڑکی چوٹی پردو تین جھونپڑیوں میں جاکر ہم رکے۔ پتہ چلا کہ یہ میرا سسرال ہے۔اور وہیں میں نے دیکھا کہ  ایک خوفناک مونچھوں والا میرا شوہر ہے۔سب اس کو مبارکباد دے رہے تھے۔شکر ہے کہ پچاس گھنٹے بعد میرا شامیانہ اتر گیا میرے پیر میں کسی چیز کے لگنے سے خون نکل آیا اس پر نسوار لگا دی گئی آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ ہر مرض کا علاج نسوار ہے۔چکر آئیں تو نسوار سونگھ لو،بخار ہو تو نسوار منہ میں رکھ لو ۔درد ہو تو نسوار اور تیل ملا کر   مالش کر لو۔ ۔شام ہوئی تو پکوڑے روٹی۔
        رات اپنی ساس کے ساتھ گزاری صبح لسی کے ساتھ پکوڑے روٹی۔دوپہر پھر پکوڑے روٹی۔رات کو پھر پکوڑے روٹی۔ایسا لگتا تھا کہ میری شادی پکوڑے روٹی سے ہو گئی ہے۔صبح جب سب لوگ اکٹھے ناشتہ کر رہے تھے تو  پھر لسی کے ساتھ پکوڑے روٹی۔میں نے اپنی ساس سے پوچھ لیا کہ آپ لوگ پکوڑے روٹی کے علاوہ بھی کچھ پکاتے ہیں۔ بس غضب ہو گیا۔میرے شوہر نے دل بھرکے مردانگی دکھائی اور سب کے سامنے خوب چانٹے رسید کئے کہ ماں کے آگے زبان چلاتی ہے۔ اس نے دل بھر کر میری دھنائی کی۔ اس کی ماں یا باپ یا بہنوں نے اس معاملے میں کوئی دخل اندازی نہیں کی۔اتنی صلواتیں سنائیں کہ پڑھ لکھ کر دماغ خراب ہو گیا ہے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں ہے۔کام کرے گی تو ساری اکڑ نکل جائے گی۔یہ کراچی نہیں ہے۔گاؤں ہے یہاں کام کرنا ہوگا۔کل سے لکڑیاں کاٹنے اور بکریاں چرانے جاؤ گی۔واپسی پر سوکھا گوبر بھی لانا ہوگا۔ میں گاؤں  میں تین ماہ رہی۔اس دوران میرے شوہر کے کندھے سے بندوق نہ اتری وہ کئی کئی دن شکار پر رہتا۔ میں مستقل ساس کے ساتھ رہتی۔ایک دن میں نے اس کی بہن گل مرجان سے لکڑیاں چنتے میں پوچھا کہ آپ لوگوں میں کیا شادی کے بعد میاں بیوی اکٹھے نہیں رہتے۔اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی بڑا شرمیلا ہے۔اس لئے ساتھ نہیں رہتا۔تین ماہ میں اس کے گاؤں میں رہی۔ ان تین ماہ میں وہ شرمیلا ہی رہا ۔اس دوران شوہر سے سوائے گالیوں اور بدزبانی کے اور کچھ نہ ملا۔شائد یہ بھی مردانگی کی کوئی شان تھی ۔اس کے آتے ہی میں تھر تھر کانپنے لگتی تھی۔ ایک تو بندوق ہر وقت کندھے پر پھر ہر وقت غصہ ،میں تو سمجھتی تھی کہ بس آج قتل ہوئی  یا کل قتل ہوئی۔ اس دوراں کچھ کچھ پشتو سمجھ ائی۔اتنا سمجھ آگیا کہ ماموں نے میری شادی کرانے میں ایک لاکھ روپے لئے ہیں۔
        اس نے تنخواہ پوچھی میں نے بتا دی۔اس نے تین مہینے کی تنخواہ کا حساب لگایا تو مجھے شک ہوا کہ یہ تو بالکل جاہل ہے۔ اسے تو حساب تک لگانا نہیں آتا۔ راز کھلا کہ یہ ڈاکٹر تو کیا اردو میں دستخط تک نہیں کر سکتا۔ڈاؤ میڈیکل کالج کی کینٹین   میں  ویٹر ہے اور سب کو کہتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ ۔میں لکڑیاں کاٹتی،سوکھا گوبر اکٹھا کرتی بکریاں چراتی اور گھر کے کام کرتی رہی۔ میں اکیلی نہیں ساری عورتیں ہی یہ کرتی تھیں۔
لٹیرے سے زبردستی طلاق
چھٹیاں  ختم ہوئیں کراچی واپس آگئے۔
ُ  ُ ارے اکیلی چلی آرہی ہے۔کہاں ہے تیرا میاں کیا گھر سے بھاگ آئی؟”
ُ  ُاماں  ابھی آرہے ہیں ۔اندر تو آنے دو گلی ہی میں شروع ہو گئیں ہیں آپ”
ُ  ُ ہاں کیا کہ رہی ہے۔ کہاں ہے وہ ۔بھاگ آئی سسرال سے؟لعنت ہے تیری زندگی پر۔ارے کچھ خاندان کی لاج رکھ لی ہوتی۔ابھی تو سہاگ کی مہندی بھی نہیں چھوٹی اور تو چلی  آئی ۔”
ُ  ُاماں میرے ساتھ ہی آئے ہیں ۔دروازے پر ٹیکسی سے اترے ہیں۔سگریٹ لینے گئے ہونگے ابھی آ جائیں گے”
میں سر جھکا کر گھر میں اپنے کمرے کی جانب گئی تو دیکھا وہ کمرہ اب میرا نہیں رہا۔اس میں اب میرے سوتیلے بھائی رہاِئش  پذیر ہیں جن کا وجود پہلے تو کبھی نہ تھا۔میرے لئے ابا کے بنائے  اس مکان میں کوئی کمرہ نہیں ہے۔میں  خانصاحب کاانتظار کرتی رہی کہ شائد باہر کوئی کام ہوگا ابھی آجائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔
        میرے آنے کا سن کر ماموں بھی آ گئے۔ان کا وہی انداز،وہی دھمکیاں،کبھی پیار سے سمجھانا کبھی غصے سے دھمکی دینا۔ میری حالت ایسی کہ کوئی مجھ سے بات نہ کرے۔میں تین ماہ کی قید بامشقت کاٹ کر آئی تھی۔یہاں میری  داستان تک سننے والا  کوئی نہ تھا۔اگلےدن سکول گئی تین ماہ کی تنخواہ کا چیک لیا ۔ بنک گئی تو خان صاحب نمعلوم کہاں سے آگئے۔ میرے تو ہوش اڑ گئے۔وہ ساری تنخواہ لے کر چمپت ہو گئے۔میں نے ڈیوٹی شروع کر دی۔ ساری استانیاں مجھ سے دل لگی کرتیں اور میں روتی رہتی۔ میری  اس حالت کو دیکھ کر ہمارےا سکول کے  چوکیدارخان بابا نے مجھ  سے میرا حال پوچھا اور کہا کہ کوئی پریشانی ہو تو بتادینا تم میری بیٹی کی طرح ہو۔اماّں بھائی اور ماموں کو ساری بات بتائی کہ وہ ڈاکٹر کہاں سول ہسپتال کی کینٹیں میں بیرا ہے۔میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اسے صرف میری تنخواہ چاہئے۔تین ماہ کی تنخواہ لے گیا اب غائب ہے اگلے ماہ پھر آجائے گا۔ میری بات کو ماموں نے سختی سے رد کیا ، ماں اور بھائی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ لگتا تھا کہ میرا کوئی اس دنیا میں نہیں ہے۔ایک ہی جملہ کہ شریف لڑکیوں کا ان کے شوہر کے گھر سے جنازہ ہی نکلتا ہے۔کاش میرے ابّا زندہ ہوتے تو کوئی  مجھے  ہاتھ تو لگا کر دیکھتا۔ایک دن میں اباّ کو یاد کر کے بہت روئی  اور ان سے پوچھا  کہ میں ان حالات میں کیا کروں۔روتے روتے برآمدے میں سو گئی کہ یہی جگہ میرے پیارے اباّ کے گھر میں میرے لئے میسر تھی۔صبح اٹھی تو  میرے اباّ میرے ساتھ تھے۔مجھے ان کا پورا سہارا تھا۔
ُ  ُ بیٹا  تم شادی شدہ ہو بیٹیاں اپنے گھر میں اچھی لگتی ہیں۔چلو وہ نہیں آتے تو میں تمہیں  تمہارے سسرال چھوڑ آتا ہوں۔ چلو اپنا سامان سنبھالو۔”
ُ  ُ ماموں میں اپنے باپ کے مکان میں رہ رہی ہوںاس میں میرا حصہ ہے۔میں اس مکان میں کسی خیرات میں نہیں رہتی۔ایک تو جاہل سے میری شادی کر دی۔مجھے بیچ دیا۔ ایک لاکھ روپے لے لئے اور اب سب مجھے ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔”
ماموں کے پسینے۔اماں کے تھپڑ۔
ُ  ُ جھوٹی الزام لگاتی ہے۔ایک تو تیری شادی کرائی اوپر سے الزام۔شرم کر۔شرم کر۔”
ُ  ُ شرم تم لوگ کرو جنہوں نے بیٹی بیچی۔”
حق آیا باطل گیا۔ماموں ایک لاکھ کی بات کی تاب نہ لاتے ہوئے خاموش ہو گئے۔
بات زبان سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔بھائی ،ماں، ماموں۔ سوتیلا باپ اور اس کا بیٹا سب کھڑے ہو گئے کہ یہ حصے کی بات کہاں سے آگئی۔میں نے کہا کہ یہ میرے ابّا کا گھر ہے۔ اس میں میرا حصہ ہےاور حال یہ ہے کہ اس میں میرے لئے ایک کمرہ نہیں ہے۔ایک غیر آدمی اس گھر میں کیسے رہ رہا ہے۔ماں کے سوتیلے بیٹے  کا کونسا حق ہے کہ وہ میرے کمرے پر قبضہ کر کے بیٹھے۔وہ میرے لئے نامحرم ہے۔ اسے باہر نکالو۔یا اس مکان کو بیچ کر میرا حصہ مجھے دو۔رہی جانے کی بات تو میں اس اجڈ جاہل بیرے کی شکل پر تھوکتی ہوں میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں اپنا اچھا برا اچھی طرح جانتی ہوں۔سب مجھے بھیجنا تو بھول گئے۔ انہیں مکان کے لالے پڑ گئے۔اتنا ہوا کہ مجھے میرا کمرہ مل گیا۔
جوں جوں پہلی قریب آرہی تھی میرا دم خشک ہو رہا تھا کہ خانصاحب آئے گا اور تنخواہ لے جائے گا۔سب سے کہا کہ مجھے اس مصیبت سے نکالو اس سے جان چھڑاؤ لیکن کسی نے نہ سنی۔میں نے اس پریشانی کو سکول کے چوکیدار خان بابا کی بیگم سے بتایا۔اس نے مدد کرنے کی حامی بھری۔خان بابا نے بار بار پوچھا کہ اس کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں اچھی طرح سوچ لو۔میں نے انکار کیا۔ خان بابا نے کہا کہ اگر وہ آتا ہے تو سکول میں لے آؤ باقی میں جانوں ۔میں تنخواہ والے دن سکول سے نکلی ہی نہیں۔اگلے دن وہ خود اسکول آگیا ۔ میں چھپ گئی ۔خان بابا نے اسے بٹھایا۔ کچھ لوگوں کا بندو بست کیا جو سب پٹھان تھے۔ ۔ اسکول میں جرگہ لگ گیاخانصاحب کے لوگ بھی آگئے۔ بات چیت میں شام ہو گئی۔ ماموں کو بھی آنا پڑا۔سب کے آگے  بات کھلی کہ میرے ماموں نےایک لاکھ روپے لے کر میری شادی اس جاہل سے کر دی۔ گویا میں فروخت کر دی گئی تھی۔لمبی چوڑی بحث  اور میری بار بار مرضی پوچھنے کے بعد آخر کار رات گئے میری اس عذاب سے جان چھوٹی ۔خان بابا نے گارنٹی لی کہ یہ دوبارہ اس علاقے میں نظر نہیں آئے گا۔اس کے بعد ساری زندگی اس لٹیرے کی شکل نہ دیکھی۔آکر ماں کو بتایا کہ اب پوچھو  ماموں سے کہ میرے بدلے ایک لاکھ روپےلئے ہیں یا نہیں ۔  لیکن  انہوں نے مجھے ہی جھوٹا کہا۔


مجھے بڈھا  مل گیا
اب میرا کمرہ میری نوکری اور میر ا کھانا پینا الگ۔مزید چار سال میں میں نے ایم اے اور ایم ایڈ کر لیا کچھ ترقی بھی ہو گئی۔ماں ماموں اوربھائی کا رویہ بھی اچانک اچھا ہو گیا۔ایک روز ماں نے کہا کہ بیٹا کب تک اکیلی رہو گی۔ایک اچھا سا آدمی تمہارے لئے دیکھا ہے۔پڑھا لکھا خاندانی اپنے گھر کا مالک اور اکیلا ہے۔پی ایچ ڈی ہے۔ بس تم سے عمر میں بڑا ہے۔اب تمہاری بھی دوسری شادی ہے ،کوئی لڑکا بالا تو ملے گا نہیں ۔میں نے ہاں کر دی۔
شادی ہوئی۔روائتی طریقے سے ہماری آنکھیں چار ہوئیں۔انہیں تو جیسے سانپ نے ڈس لیا۔
ُ  ُارے بھئ یہ کس نے تمہاری شادی ہم سے کر ادی۔ توبہ  توبہ ہم نے تو یہ نہیں کہا تھا۔” انہوں نے مجھ سے دور ہوتے ہوئے کہا۔ُ ُ ہم نے تو کہا تھا کہ کوئی بوڑھی شریف خاتون جو بڑھاپے میں ہمارا ساتھ دے سکے  اس سے رشتہ کرا دیں۔ہم تو اب ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔بیوی کا انتقال ہو گیا بچوں کی شادیاں کر دیں۔نانا دا دا ہیں۔ اکیلے تھے تو کسی بڑھیا کا ساتھ مانگا تھا۔ تم بی بی  اپنے گھر جاؤ۔ میر اتمہارا کیسا ساتھ۔میں کہاں اور تم کہاں۔کیوں کسی نے تمہاری جوانی خراب کی ہے۔لعنت ہے ان ایجنٹوں پر جنہوں نے یہ رشتہ کرایا۔ تمہارا کوئی تھا نہیں جو مجھے دیکھ تو لیتا۔ توبہ توبہ استغفراللہ۔”
دروازہ کھول کر اپنی بہنوں کو بلا لیا اور سخت ناراض ہوئے کہ تم لوگوں کی آنکھیں نہیں تھیں۔یہ کیا کیا ہے۔میں ہکا بکا سب کو تک رہی تھی کہ یہ کیاہو رہاہے۔زندگی ماں کے گھر میں بھی کوئی اچھی تو نہیں گزر رہی تھی۔میں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔بار بار کی شادی اور جگ ہنسائی سے مجھے یہاں رہنا گوارا تھا۔صبح جب وہ طلاق کے کاغذات بنوانے جا رہے تھے میں نے ان کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔اور میں ان کے گھر بس گئی۔ان کی بہنوں،بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کا رویہ بہت اچھا تھا۔سب ہماری دعوتیں  کرتے۔گھربلاتے پکنکوں پر لے جاتے۔ان کے بچے مجھے آنٹی کہتے اور جان چھڑکتے۔میں اس خاندان میں بہت خوش تھی۔ پانچ سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ماں نے عدت میں بھی میرا ساتھ نہ دیا ۔محلے والے اور شاگرد ہی میرا سودا لاکر دیتے۔ ایک بڑا مکان انہوں نے میرے نام کر دیا تھا۔رہنے کی پریشانی نہیں تھی۔ان کی پنشن بھی اچھی خاصی تھی جو میرے نام ہو گئی۔ان کے گھر والوں کا رویہ بھی میرے ساتھ اچھا تھا۔
 دن کاٹے نہیں کٹتے تھے۔ ایک بجے اسکول سے آجاتی۔پھر آ کر کھانا پکانا۔اکیلے کھانے کو  دل بھی نہیں چاہتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ بڑے شوق سے کوئی سالن پکاتی پھر کھانے کو جی نہ چاہتا۔ مجھے اپنے گھر پر مردوں کا آنا جانا بالکل پسند نہ تھا۔ سکول سے لے کر محلے داروں کےحضرات بغیر بلائے میری خیریت پوچھنے آجاتے ۔ آہستہ آہستہ مرحوم کے رشتہ دار بھی مجھے بھول گئے۔ میرےاپنے تو مکان والی بات سے اب تک مجھ سے ناراض تھے۔ گھر میں رہتے رہتے دل گھبرا جاتا تو باہر نکل جاتی۔ کہاں جاتی۔مارکٹ کا چکر ّ لگاتی تو لفنگے پیچھے پیچھے چل دیتے۔ڈھیروں کتابیں خرید لیں کب تک پڑھتی۔ان سےبھی دل اچاٹ ہو گیا۔ جب بہت پریشان ہو جاتی تو ابا جان کی باتیں یاد کر کے  دل بہلا لیتی۔ یہ یادیں میرے لئے بہار کا جھونکا ہوتیں۔وہ دس روپے کا نوٹ جو  ابّا نے دیا تھا۔جسے میں نے خرچ نہیں کیا تھا۔ جو اب متروک بھی ہوچکا تھا س کو نکال کر آنکھوں سے لگاتی اور سکون پالیتی کبھی ان کی آخری تحریر کو نکال کر پڑھ لیتی۔اچھی یادیں  نشہ آور  ہوتی ہیں۔ ان کو یاد کرنے سےایک نشہ سا طاری ہو کر پر سرُور نیند آجاتی ۔یقیناَ َ  صرف ابا جان کی شخصیت ہی ایسی تھی جس کو مجھ سے سچی محبت تھی۔میں ان کی  گڑیا تھی۔نمعلوم کیوں میں گڑیاں خریدتی اور سجا بنا کر گھر میں رکھ لیتی۔ شاید اس لئے کہ ان کو گڑیا پسند تھی۔پوری دنیا میں بس یہ ایک ہی شخص میرا تھا  جو مرنے کے بعد بھی میری محبت میں زندگی موت کا فاصلہ ختم کر کے ہر موقع پر دھم سے موجود ہوتا تھا۔
ہے۔
پوپری
وقت گزرتا رہا۔ ہر مخلص نے شادی کا مشورہ دیا۔دو شادیوں کے بعد اب تیسری شادی میں نے اس لفظ پر لعنت بھیج دی۔کچھ رشتے بھی آئے لیکن شادی کے نام سے میری نفرت  دل سے نہ نکلی۔ کئی جگہ کوئی بچہ گود لینے کے لئے رجسٹریشن کرایا ہوا تھا۔ ایک ٹرین کے حادثے نے جو گھوٹکی  سٹیشن پر ہوا تھا اس نےمیری آرزو پوری کر دی۔ایک ادارے کے سربراہ نے مجھے بلا کر ایک کالی سی گول گپہ لڑکی جو دو برس کی ہوگی میرے حوالے کی۔اس شرط کے ساتھ کہ جب چاہیں گے واپس لے لیں گے۔ گود لینے کے کاغذات بنوا کر اسے میرا مکمل تحفظ دے دیا۔
اسے صرف اپنا نام آتا تھا ُ  ُ  پوپری”   کچھ سندھی الفاظ بول لیتی تھی۔شکل صورت سے یہ کسی محنت کش خاندان کی دیہاتی لڑکی معلوم ہوتی تھی۔کپڑے بھی سندھی کڑھائی کے پہننے ہوئے تھے۔بہت خوبصورت کڑھائی تھی ۔جو آج بھی محفوظ ہیں۔اس کے خیال میں وہ اس کی ماں کے ہاتھ کے کڑھے ہوئے ہیں۔تمام اخباروں میں اس کے فوٹو چھاپ کروالدین کو تلاش کیا۔ سندھ کے تمام سٹیشنوں پر اس کا فوٹو لگا کر  کوشش کی۔ ریڈیو سے  بھی اعلان کرایا ۔کئی دن تک گھوٹکی کی جانب جانے والی ٹرینوں میں  اشتہار بانٹے کہ اس کے والدین کا پتہ چل سکے لیکن کامیابی  نہ ہوئی
اس کو میرے پاس دیکھ کر کیسی کیسی باتیں لوگوں نے بنائیں۔ایسا لگتا تھا  جیسے یہ اتنی بڑی ہی پیدا ہوئی ہے اور لوگ اسے میری کسی غلطی کا نتیجہ سمجھتے تھے۔اسے اسکول لے جاتی، ہر وقت ساتھ رکھتی۔اتنی پیاری تھی  کہ ہر کوئی اسے پیار کرتا اور گود میں اٹھا لیتا۔ میرے اسکول کی استانیاں اور شاگرد لڑکیاں  اسے سکول کے اوقات میں لئے پھرتی تھیں۔داخلے کی عمر میں  اچھے سکول میں داخلہ کرایا۔بڑی کوشش کی کہ کسی طرح  اچھے نمبروں سے پاس ہو  لیکن ایسا نہ ہوا۔کتابوں سے زیادہ اسے پودے پسند تھے۔اسے کلہاڑی چلانا پودوں کی کاٹ چھانٹ کرنا، ، کیاریوں میں وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔ بجلی کا کام کرنا پلمبر کا کام کرنا کڑھائی سلائی غرض عملی کام سے اسے دلچسپی تھی،پڑھائی سے نہیں۔پھر بھی مناسب نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔
 پوپری کو میرے کسی رشتہ دار نے کبھی قبول نہ کیا۔ میں جہاں اس کو لے کر جاتی لوگ اپنے بچوں کو اس کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیتے۔ میں صرف اس لئے کہ لوگ اس سے محبت کریں اپنے عزیزوں کے بچوں کو ساری عمر مہنگے مہنگے تحائف اس کے ہاتھ سے دلاتی رہی، لیکن اس کو کسی نے میری اولاد کا درجہ نہ دیا۔بلکہ جس بات کو میں چھپانے کی کوششش کرتی وہ اس کو اور اچھالتے۔ پوپری کو احساس دلاتے کہ تم ہم میں سے نہیں ہو۔تم کسی نیچ خاندان سے ہو۔تم کالی ہو،تمہارے ماں باپ کا پتہ نہیں ہے،وغیرہ وغیرہ۔سمجھدار ہونے پر مجھے مورودِالزام ٹھیراتی کہ ماں تم نے اپنی غرض کو میرے ماں باپ کو تلاش نہیں کیا۔تمہیں ایک بچہ چاہیے تھا تم نے حاصل کر لیا۔ماں باپ مل جاتے تو تم کیا کرتیں تم نے جان بوجھ کر میرے ماں باپ سے مجھے چھپایا۔اس کے کہنے پر میں اسے سندھ کے کتنے ہی شہروں اور دیہاتوں میں  اس کے پرانے فوٹو اور کپڑے ساتھ لے  کر اس کے والدین کو تلاش کرنے گئی ۔ دیہاتیوں کا خیال تھا کہ یہ بھیل خانہ بدوشوں کے خاندان سے ہے۔ کتنے ہی خانہ بدوشوں کے ڈیروں پر گئی لیکن اب اتنے سال بعد کون ملتا۔

پوپری اسکول  کی ہاکی ٹیم کی کپتان بنی  اور بورڈ کی ٹیم میں بھی شامل ہو گئی۔ایک بات بڑی عجیب تھی کہ بستے کے ساتھ اس کی ہاکی کٹ جس میں ایک ہاکی اور ایک کلہاڑی  ہوتی ہمیشہ کندھے پر ہوتی تھی۔ایک روز میرے ساتھ اسکول سے واپس آ رہی تھی کہ ایک کتا پیچھے لگ گیا۔بھونکنے لگا۔جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔جتنا پوپری اسے بھگاتی وہ اتنا ہی بھونکتا۔ سڑک پر ہمارا تماشہ دیکھنے والے بہت تھے لیکن کتّے کو بھگانے والا کوئی نہیں تھا۔چشم زدن میں پوپری نے کلہاڑی نکالی اور ایک ہی وار میں کتے کا سر اس کے تن سے جدا تھا۔سڑک پر   اب دوسرا تماشہ لگ گیا۔اس کا مالک آ یا اور لگا تو تو میں میں کرنے۔پوپری نے پھر کلہاڑی نکالی اور پھر کوئی نظر نہ آیا۔تھر تھر کانپتی میں نمعلوم کیسے گھر تک پہنچی۔ مجھے اس ننھی  پوپری میں ایک ظالم شیطان نظر آنے لگا۔ میں اس سے اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ اسے دیکھ کر میں کانپ جاتی تھی۔  میں نے ساری عمر کبھی مرغی ذبح ہوتے نہیں دیکھی اور یہ خونی سین تو میری رگ رگ میں خوف کی کپکپی بسا گیا۔میں حیران تھی کہ ایک وار میں گردن الگ ہو سکتی ہے ۔ اس کو کیسے بستر میں ساتھ لٹا کر پالا تھا۔ کس طرح چودہ سال سے میں اس کی محبت میں گرفتار تھی۔اب مجھے اس سے خوف آ رہا تھا۔
پوپری اب کالج میں آچکی تھی۔ہاکی کٹ ہمیشہ ساتھ ہوتی۔ اس نے ہاکی میں ایک نام کمایا۔اس کی ایک خواہش کی کہ اس کا ایک مکان ہو جس میں بہت ساری خالی جگہ ہو،اس میں بہت سے درخت ہوں اونچے اونچے۔ایک دن بیٹھی ایک مکان کا نقشہ بنا رہی تھی۔ میں نے دیکھا تو کہنے لگی جب بھی پیسے ہونگے تو ایسا مکان بناؤنگی۔اس میں ایک بڑا حصہ باغیچے کا تھا۔ساون گزرتے رہے۔زمین لے لی گئی۔ نقشہ اس کی مرضی کا بنایا گیا۔ تعمیر سے پہلے درخت لگا دئے گئے۔پوپری کالج کی منزلیں طے کرتی رہی۔ اس کی مرضی کا مکان بنتا رہا۔ایک ایک دروازہ اس کی پسند سے آیا۔واش روم کی  ڈیزائننگ اس کی مرضی سے ہوئی۔فرش کی ٹائلز، زینے کا ماربل،چھتوں کا سجاوٹ،کلر سکیم ایک ایک چیز اس کی مرضی اور مشورے سے تیار کی گئی۔مکان بنتے وقت اس کی خوشی قابلِ دید تھی۔
رشتہ داروں نے مخالفت کی انتہا کر دی۔کوئی کھلے عام کہتا کہ یہ اس کے نام سے نہ لو۔ کوئی رازدارانہ لہجے میں کہتا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ ساری عمر کی کمائی تم غیر کے نام کر رہی ہو۔خوب ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد کوئی کہتا کہ بہن آخر تمہارے بعد یہ اس کا ہی تو ہوگا۔ جلدی کاہے کی ہے،نمعلوم کیسا شوہر ملے اور بیچ کھائے گا تو یہ کیا کرے گی۔اس دوران میرے مکان  کا سودا ہو گیا اور اس کو خالی کرنے کے دن نزدیک آ گئے۔امی نے کہا کہ جب تک مکان کی فنیشنگ ہو رہی ہے میرے پاس آجاؤ۔ اس کی پوپری نے بہت مخالفت کی۔کسی طرح جانے کو تیار نہ تھی۔مجبوری سمجھائی تو اس شرط  پر راضی ہوئی کہ اپنے ماموں کو کہہ دیں کے میرے قریب نہ آئیں۔میں ان کو برداشت نہیں کر سکتی۔
میں نہیں جانتی کہ کیا ہوا۔بس میں اسکول میں تھی کہ اماں کا فون آیا فوراَ َ  گھر آؤ ۔رکشہ پکڑ کر  پہنچی تو پوپری کے کمرے میں ماموں کا سر الگ اور دھڑ الگ پڑا تھا ۔پوپری دروازہ بند کرکے کلہاڑی ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی۔میں تو بےہوش ہو گئی۔ہوش میں آئی تو ہسپتال میں تھی۔پوپری کو پولیس لے گئی۔ماموں کو دفن کر دیا گیا۔ سارے خاندان میں بدنامی میری ہوئی۔
ُ  ُسانپ کا بچہ پالا تھا تم نے،ڈس گیا نا”
ُ  ُ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ اتنا سر پر نہ چڑھاؤ،تم تو کسی کی سنتی ہی نہیں تھیں۔”
ُ  ُ کیا تمہاری عقل ماری گئی تھی ایک غیر کو پال لیا اور اتنا بڑا مکان اس کے نام کر دیا”
ُ  ُ باپ کو مروا دیا اور اب ٹسوے بہا رہی ہو۔میرا تو جی چاہتا ہے کہ تمہاری بھی گردن الگ کر دوں” سوتیلا بھائی بولا۔
ان تمام سوالوں  اور رسوا کن جملوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
لاکھوں روپے وکیلوں پر خرچ کر کے بھی اس کی ضمانت نہ ہوسکی۔اس کا کہنا تھا کہ اس نے دنیا سے ایک برائی ختم کی ہے۔اس برائی کا مجھے بھی تجربہ تھا۔میں جانتی تھی کہ یہ کیا بات تھی۔عدالت میں تمام باتیں منظر عام پر آئیں۔ جن کی میں گڑیاتھی۔ان کے قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ابا جان کی لاش تیس سال بعد نکال کر اس کا پوسٹ مارٹم ہوا اور ثابت ہوا کہ انہیں زہر دے کر مارا گیا تھا۔یہ بات میرے سب  رشتہ داروں کو معلوم تھی لیکن میں اس وقت چھوٹی تھی۔کورٹ میں میرا بیاں بھی ہوا کہ ماموں کی کیا حرکتیں تھیں۔کاش مجھے معلوم ہوتا کہ پوپری کیوں کہتی تھی کہ ماموں میرے قریب نہ آئیں۔کاش اس کی بات مان لی ہوتی۔
ُ  ُ ممّا درائنگ  روم میں  سامنے کی دیوار پر میر ا وہ فوٹو لگانا جس میں میں ملتان والی ٹرافی لئے اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑی ہوں۔بڑا کر کے لگانا۔”
ُ  ُ مّما وہ سیدھے ہاتھ والی دیوار پر جو لاہور میں کپ لیا تھا جس   میں گورنر بھی کھڑے تھے ،وہ لگانا۔اور دیکھنا وہ جو انصاری فوٹو گرافر ہیں نا جو سات نمبر ناظم آباد میں ہیں ۔جن سے آپ نے میرے نوٹس فوٹو کاپی کرائے تھے ان سے بنوانا”
 ساون پر ساون اور خزاں پر خزاں گذرتی رہی۔پوپری اب بھی دروازوں کے رنگ اپنی مرضی سے پسند کرتی رہی۔اور اپنے فوٹو کمروں میں لگواتی رہی۔اپنے بیڈروم کا فرنیچر جیسا  اس نے بتایا میں بنواتی رہی۔
 میں اس حویلی نما مکان میں منتقل ہو گئی ۔اسے اپنے کئے پر کوئی پشیمانی نہیں تھی۔وکیلوں نے کتنا کہا کہ انکار کر دو لیکن اس کا ایک ہی بیان تھا کہ میں نے ایک شیطان کو مارا ہے۔مقدمہ چلتا رہا چلتا رہا۔عدالتیں ،جج اور وکیل تبدیل ہوتے رہے۔سیشن کورٹ پھر ہائی کورٹ۔اسے کبھی میں نے نہ پشیماں دیکھا نہ پریشاں دیکھا۔ جیل کی کبھی  کوئی شکایت نہ کی۔
جب پہلی پیشی پر میں نے اسے ہتھکڑی لگے دیکھا۔جس کادوسرا سرا ایک لیڈی کانسٹیبل نے پکڑا ہوا تھا۔تو میرے دل کا کیا حال ہوا میں جانتی ہوں۔میں نے اسے پھولوں کی طرح پالا تھا۔کبھی کوئی  مکھی مچھر تک اس کے پاس نہیں پہنچنے دیا۔اب کھٹملوں  مچھروں کے ان گنت نشانات اس کے چہرے اور ہاتھ پاؤں پر چیچک کی طرح نظر آرہے تھے۔گھنٹوں عدالت کے باہر درخت کے نیچے  زمیں پر بیٹھی رہی۔ ہر آنے جانے والا اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی  قحبہ خانے سے طوائف کو پکڑ کر لائے ہیں۔
جیل میں پانچ سال پورے ہونے والے تھے۔بہت امید تھی کہ اب ضمانت ہو جائے گی۔پہلی مرتبہ اس کا حوصلہ پست دیکھا۔ بہت دیر تک مجھ سے معافیاں مانگتی رہی۔میں اسے کیا بتاتی کہ اس نے جس خبیث کو قتل کیا ہے وہ مجھے بھی پریشان کرتا تھا ۔اور میں بھی اس کے مرنے کی دعا کرتی تھی۔اس بڈھے خبیث کی وجہ سے میری بچی کس مصیبت میں تھی۔
ُ  ُ مما میں نے آپ کو بہت ستایا۔آپ نے میرے لئے کیا کیا نہیں کیا۔کاش میں آپ کو ان پریشانیوں میں نہ ڈالتی۔لگتا ہے اب اس مکان  میں میری لاش ہی جائے گی۔”
ُ  ُمیری بچی  میری گڑیا تمہاری ضمانت ہونے والی ہے۔پریشان نہ ہوؤ”
ُ  ُ مما میری طبیعت بہت خراب ہے۔ جیل میں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں اگر ہے تو آتی نہیں ۔میل ڈاکٹر عورتوں سے نامناسب برتاؤ کرتا ہے۔میں بہت پریشان ہوں۔مہینے میں دو بار ملاقات ہوتی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ اگلی ملاقات پر میں آپ سے ملنے کے لئے موجود ہونگی یا نہیں۔بس جہاں اتنی مہربانیاں آپ نے کی ہیں وہاں آخری مہربانی یہ کیجئے گا کہ مجھے میرا مکان تو دیکھنے کو ملے گا نہیں۔ گارڈن میں جو دو آم کے درخت ہیں ان کے درمیاں مجھےدفنا دیجئے گا۔”
ان پانچ سال میں پوپری کمزور ہو کر آدھی ہو چکی تھی پھولوں میں رہنے والی جیل کو کیسے برداشت کرتی۔آخر ایک دن اسے ہتھکڑی  لگا کر سول ہسپتال  کے بیڈ سے باندھ دیا گیا۔وہیں اس کا انتقال ہو گیاجب میں وہاں پہنچی تو وہ ہتھکڑی لگی لاش  کی صورت میں وہاں بیڈ پر  تھی۔لاش کی حوالگی تک اس کی ہتھکڑی ہاتھ میں بندھی رہی۔جج نے کتنے ہی سرٹیفیکیٹ مانگ کر لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کا آرڈر کیا۔وقت ختم ہو گیا۔اگلے دن اتوار۔تین دن بعد پوسٹ مارٹم کرکے لاش میرے حوالے کی۔گویا مرنے کے بعد بھی تین دن لاش کو سزا ملتی رہی۔ہائے میری بچی ،میری گڑیا،میری پوپری۔ کتنے شوق سے اس نے یہ گھر بنوایا تھا آخر کار اسے یہ نصیب ہو گیا۔ایک مرتبہ ہی سہی میں نے اسے اس کے بیڈ پر لٹا دیا
یہاں بھی میرے سکول کے ریٹائر خان بابا ہی کام آئے۔ انہوں نے دفنانے کا سارا عمل اپنی برادری کے ذریعے سے کرایا۔ میرے خاندان اور جاننے والوں میں سے کسی نے اس کے جنازے میں شرکت نہ کی ۔ جس گارڈن میں اس نے اپنے ہاتھ سے درخت لگائے تھے  وہیں خان بابا نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور میری ہدایت اور پوپری کی خواہش پر۔ اسے ٹھیک اسی جگہ دفن کیا جہاں اس نے کہا تھا۔
میں ریٹائر ہو چکی تھی۔میرا حال اب پھر وہی ہو گیا جو پوپری کے آنے سے پہلے تھا۔ناشتہ بناتی دوپہر تک پڑا رہتا۔کھانا پکاتی اور کھانے کو دل نہ چاہتا۔ گھر کی ایک ایک چیز پوپری کی بنوائی ہوئی تھی ان کو دیکھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا۔ ۔کوئی شے بھی دل کو نہ بھاتی تھی۔اب تو عبادت اور قرآن  میں بھی دل نہیں لگتاتھا، بس پڑھ لیتی تھی اب تو لگتا تھا کہ ابا بھی بوڑھے ہو گئے ہیں۔ان کی طرف سے بھی کوئی ڈھارس نہیں بندھتی تھی۔
کچھ ماہ گزرے ایک لنگڑے محتاج نے دروازہ بجایا۔میں نے دروازہ کھولا اور کچھ خیرات اسے دی۔وہ کھڑا رہا مجھے دیکھتا رہا۔ بےسدھ   ایسے جیسے اس میں جان نہیں۔خیرات کے پیسے اس کے ہاتھ سے گر کر اڑ گئے۔اسے ہوش تک نہیں۔
ُ  ُ میری پوپری مجھے لوٹا دو”۔ہاتھ سے مڑا تڑا  ایک کاغذ نکالا میں نے اسےدیکھا یہ وہ اشتہار تھا جو پوپری کی تلاش میں چوبیس سال پہلے ٹرین میں بانٹا گیا تھا۔میں سناٹے میں آگئی۔
ُ  ُ کون ہو تم ”
ُ  ُ میں پوپری کا بدنصیب باپ ہوں۔میری بیوی گھوٹکی حادثے میں مر گئی۔میں اس وقت جیل میں تھا۔میری  پوپری گم ہو گئی ۔پوپری کی ماں اسے مجھ سے ملانے لا رہی تھی۔مجھے یہ اشتہار کسی نے گاؤں سے لاکر جیل میں دیا تھا ۔چوبیس سال سے میں جیل میں اس کو سنبھالے ہوئے ہوں۔تمہارا پتہ معلوم کرتے کرتے کئی ہفتے ہو گئے۔کل جب آیا تو بہت رات ہو گئی تھی۔میں نے پوپری کا نام باہر گیٹ پر پڑھ لیا تھا۔سوچا اب توپوپری سو رہی ہوگی ہمیشہ گہری نیند سوتی تھی اور اس کی ماں کہتی تھی اسے اٹھاؤ نہیں۔ وہ بات یاد آگئی تو چلا گیا کہ کل آؤنگا۔”
اس کی شکل بالکل پوپری سے مل رہی تھی۔،میں اسے اندر لے گئی اور ڈرائنگ روم میں بٹھا کرپوپری کےکپڑے جو اس نے حادثے کے وقت پہنے ہوئے تھے لینے چلی گئی۔
واپس آئی تو وہ پوپری کی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔
ُ  ُ یہی ہے میری پوپری ،مل گئی۔اپنے بابا کو مل گئی۔پوپری او پوپری کتنی بڑی ہو گئی تو”
اتنے زور سے پوپری کو پکار رہا تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ پوپری کا باپ ہی ہے۔
میں نے وہ کپڑے اس کو دکھائے تو بولا   ُ  ُ ایسے کپڑے پوپری کی ماں بنا رہی تھی۔یہ پھول اسے ہی بنانے آتے تھے۔وہ دوسری لڑکیوں کو بھی سکھاتی تھی۔ وہ یہ پوپری کے لئے بنا رہی تھی۔کہاں ہے وہ؟
ُ  ُ چلو اندر گارڈن میں ہے”
اس نے دیکھا اور دھاڑیں مار مار کر رونے  لگا۔    ُ  ُیہ کیا ہوا   میری پوپری کو۔پوپری اپنے بابا کا انتظار تو کر لیا ہوتا۔ اماں یہ کیا ہوا ہے اسے۔کچھ تو بتاؤ۔میری پوپری کیسے مر گئی؟”
ُ  ُاللہ کی مرضی یہی تھی۔اس کی اتنی ہی زندگی تھی۔”بہت دیر روتا رہا پھر فاتحہ پڑھی۔
میں سوچنے لگی کہ پوپری کا فاتحہ پڑھنے ولا تو کوئی ہے۔میرا تو کوئی بھی نہیں ہوگا۔ اگر میں بھی یہیں دفن ہو جاتی ہوں تو پوپری کے رشتہ دار میری قبر پر بھی فاتحہ پڑھ لیا کریں گے۔
میں نے جس کو زندگی میں سہارا دیا وہ اب مجھے مرنے کے بعد سہارا دے گی۔
ُ  ُ پوپری
عمر26 سال
 تاریخ انتقال 20 فروری 1960”
اس نے کتبہ بلند آواز سے پڑھا۔
ُ  ُماں جی اس میں لکھ دیں پوپری ولد فقیر محمد”
ُ  ُ کون فقیر محمد”
ُ  ُ فقیر محمد عرف فقیرا ڈاکو  ، اماں جی میں گناہگار”
-----------------------------------000-------------------------
آج ان تینوں  کی قبریں حویلی نماایک مکان  میں موجود ہیں جس کے گیٹ پر 50 سال سے ہائی کورٹ کا تالا پڑا ہے۔جس کی ملکیت کے کئی دعویدار ہیں لیکن فاتحہ پڑھنے ولا کوئی نہیں۔پوپری درمیان میں ہے۔اس کے لگائے ہوئے درختوں پر پرندے حمد و ثناء پڑھتے ہیں۔ ۔خان بابا کا پوتا نہ ہوتا توکون جانتا کہ تینوں کی زندگیاں تین مختلف کہانیوں کے ساتھ کس طرح ایک جگہ اکٹھی ہو کر ابدی نیند سو رہی ہیں۔
ربّا  
تیریاں گلاں تو ای جانے
اسی تاں ایں لوک نمانے





1 comment: