Sunday, July 23, 2023

ہجرت کی تلخ یادیں۔

 

ہجرت کی تلخ یادیں

یہ بات ہے 1956 کی جب ہجرت پر مستقل پابندی لگ چکی تھی اور ابھی ہندوستان کے بہت سے مسلمان  پاکستان  آنا چاہتے تھے۔خاص طور پر حیدرآباد  دکّن پر ہندوستان کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں کے مسلمان پاکستان آنا چاہتے تھے۔ بھارت حیدراباد دکن پر فوج کشی کر کے قبضہ کر چکا تھا۔

ہم اس وقت حیدرآباد دکن  میں تھے اور والد صاحب وہاں محکمہ کوآپریٹو سوسایٹیز میں آفیسر تھےقبضہ کے بعد حیدرآباد  دکّن میں عازمِ پاکستان ہونا جرم تھا۔

والد صاحب نےپاکستان جانے کا خفیہ پروگرام بنایا اور ہجرت سے قبل الگ الگ  دو چپڑاسیوں کو سامان دے کر آگے روانہ کیا کہ وہ کلکتّہ سامان پہنچائیں گے پھر ہم وہاں سے مشرقی پاکستان چلے جائیں گے۔ان میں سے ایک تو سامان لے کر بھاگ گیا اور پھر کبھی نہ ملا اور دوسرا کلکتّہ سامان لے کر پہنچ گیا۔

اب گھر سے چھپ کر نکلنا تھاکیونکہ ہر مسلمان مشکوک تھا۔معمول کے مطابق دودھ گوشت سبزی  صبح خریدی گئی ۔دن گذارا  شام کو  پلنگوں پر  رات کے بستر لگائے گئے مچھر دانیاں تانی گئیں ،نوکرانیوں کو رات کا کھانا پکانے کی ہدایت کی  کہ کوئی  بات خلافِ معمول نہ ہو ۔کلب جانے کے لئے تانگے میں بیٹھے۔

’’ امّی میں نے کل جو گیند لی تھی وہ گھر میں رہ گئی ہے تانگہ روکیں میں گیند لے آؤں”۔ گھر والے کس مشکل میں تھےسارا گھر چھوڑکر جا رہے تھے اور اس معصوم کو اپنی گیند کی پڑی تھی۔’’امی یہ تانگہ کدھر جا رہا ہے کلب تو ادھر ہے،ہم کہاں جا رہے ہیں؟” ’’بیٹا پہلے دیوان صاحب کے گھر جائیں گے پھر وہاں سے کلب جائیں گے”

 ایک دیوان صاحب کے گھر اتر گئے۔یہ دیوان صاحب  با اثر آدمی تھے اور والد صاحب کے ہمراز تھے۔دیوان صاحب نے اسمگلر دیئے ۔رات گئے ہم آٹھ  افراد بیل گاڑی میں بھیس بدل کر دیہاتیوں کے حلیے میں روانہ ہوئے،بس اور ٹرینوں  سےپہلی منزل کلکتّہ تھی۔  راستے میں کئی جگہ پولیس کو رشوت دی اور کلکتہ پہنچ گئے۔

 ایک بنگالی چپڑاسی تو سامان سمیت کلکتّہ آ گیا۔ دوسرے   کاتین ہفتے ہوٹل میں انتظار کیا لیکن وہ بیوفائی کر گیا۔والد صاحب کے پاس جو رقم تھی وہ خرچ ہوچکی تھی  ۔جو سامان بِک سکا بیچ کر ہوٹل کا بل دے کر  ضرورت سے کم رقم بچی۔ اب وہ آفیسری کے ٹھاٹھ باٹھ ختم اور ہم حقیقی کسمپرسی والے مہاجر ہو گئے۔ ہندوستان اور مشرقی پاکستان کا  درمیانی  بارڈر پار کرنے کے لئے  ہی ان سمگلروں کی خدمات حاصل کی تھیں۔وہ ہمیں کھیتوں ندی نالوں سے رات  کو سفر کراتے اور دن کو درختوں یا فصلوں میں  چھپا دیتے۔

سخت اندھیرا بارش کیچڑ سردی۔  ندّیوں سے نکلتے ہوئے بھیگنے کی مصیبت جھیلتے ہوئے پیدل پیدل چلتے گئے۔جب کوئئ ندّی پار کرنی ہوتی تو  دو تین کلو میٹر اوپر یا نیچے جانا پڑتا پھر کیچڑ سے گزر کر ندّی پار کرتے ۔بعض ندّیوں پر ڈونگا نام کی پیالہ نما کشتی سے پار ہوتے ۔یہ بانس کی بنی ہوئی بالکل پیالے جیسی دس فٹ قطر کی ایسی گول کشتی ہوتی تھی جس کو بانسوں کے بنے چھیکے پر بھینسے کی کھال چڑھا کربنایا جاتا تھا اس کی خاصیّت یہ تھی کہ وزن بیچ میں ہونے سے یہ متوازن رہتی ہے اور پوری کی پوری پانی میں ڈوبی ہوتی ہے ،پانی کی سطح سے بس ایک آدھ فٹ اوپر کا حصّہ نظر آتا ہے جو دور سے دکھائی نہیں دیتا ۔

ایک سال سے آٹھ سال کے پانچ بچےّ ، والدین کس مشکل میں مبتلا تھے یہ وہی جان سکتے ہیں۔ یہ پاکستان آنے کی لگن تھی  یا ہندوستان  سے بھاگنے کی فکر۔  ایک جگہ بارڈر پر اندھیرے میں اچانک  پولیس نے ہمیں دیکھ کر روائتی انداز میں جو ہینڈز  اپ، رُکو  خبردار،ہلنا نہیں کا شور مچایا اور سب کو مع سمگلروں کے  پکڑ لیا تو میں  خوف  سےبھاگ کھڑا  ہُوا۔ اندھیرے جنگل میں  بھاگتا چلا گیا اور پولیس کا چِلاّنا روکو پکڑو  امّاں کی آوازیں ہائے میرا بچّہ لیکن میں بھاگتا  ہی چلا گیا  اپنی طرف سے میں اب ا یک درخت کی اوٹ میں چھپ کر محفوظ   ہو گیاتھا لیکن پکڑا گیا دو چار گھونسوں لاتوں کے بعد ایک وردی والے نے مجھے بالوں سے پکڑ کر ایسے کمر پر لادا جیسے شکاری خرگوش کو  اور ایسے لا کر پٹخا  جیسے دھوبی کپڑے پٹختا ہے اماں کو سکون ہُوا ۔

لین دین کے بعد قافلہ روانہ ہُوا  اگلی پولیس چوکی پاکستانی بنگالی مسلمانوں کی تھی  جنہوں نے ہماری حالت دیکھ کر امداد کی اور ایک بنگالی خاندان کی طرف بھیجا ۔ محمّد عالم کا یہ گھر تھا ۔ یہ ایک متوسّط گھرانا تھا جس میں دو بھائی اپنے تیرہ بچوں کے ساتھ رہتے تھے ۔آٹھ چھوٹے بچوں کو رات گزارنے کے لئے ایک بانسوں کے بنے دڑبے میں بھیج دیا جاتا تھا اس دڑبے کے باہر پٹ سن کی بوریوں کی تین چار پرتیں لپیٹی ہوئی تھیں۔اور اندر بھی بہت سی بوریاں اوڑھنے کے لئے پڑی تھیں۔ کہتے ہیں کہ نئی بوریاں پٹ سن کی والدین استعمال کرتے تھے اور جب وہ نرم ہوجاتیں تو بچوں کو استعمال کے لئے سے دی جاتی تھیں۔ دو دن وہاں رُکےکپڑے دھوئے   نہائےایک ہفتے سے تو منہ  بھی نہیں دھلا تھا  ۔ مشرقی پاکستان  میں ڈھاکہ سے بجرے میں چاٹگام آ کر  بحری جہاز کے ذریعے سیلون  آئے۔ یہاں ہمارا بحری جہاز ایک بحری کرین سے ٹکرا گیا تھا جس سے ہم سب گر پڑے تھے۔یہ جہاز چھوڑنا پڑا اورایک دن بعددوسرے بحری جہاز سے کراچی مغربی پاکستان منتقل ہو گئے۔

ہمارےساتھ جو بنگالی چپڑاسی تھا وہ بھی پاکستان آنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس کرایہ نہیں تھا اور ابا کے پاس بھی اس کا کرایہ نہیں تھا۔وہ کسی نہ کسی طرح جہاز میں چڑھ گیا بنگالی تھا، شائد قلی یا مزدور کے بھیس میں چڑھ گیا۔اب اسے کراچی میں اترنا تھا وہ ہمیں سلام کر کے   جہاز سے کود کر تیرتا ہوا نجانے کدھر کنارے لگا۔ہم کراچی سٹیشن آگئے ۔بس اتنا معلوم تھا کہ نانا نانی خانیوال میں ہیں۔وہاں جانا تھا۔کسی نے ہمیں سٹیشن پر   دیکھا اور جیکب لائنز میں ابا کے بھائیوں کو اطلاع دے دی۔ وہ آئے اور ہم سب کو  ٹرین سے اتار کر جیکب لائنز لے آئے۔ ہم اپنوں میں آگئے۔یوں ہماری ہجرت مکمل ہوئی۔

Wednesday, July 19, 2023

ہندوستان میں بچپن کی یادیں

 

ہندوستان

کچھ کچھ یاد آتا ہے کہ ایک ندی تھی اس میں کچھ پانی چل رہا ہوتا تھا۔ یہ عالم پور تھا ۔میں اپنے دوستوں ہسنو ،میاں جانی اور بابو جانی کے ساتھ اس ندی پر جاتا اس کی پلیا کے پاس ایک مچھیرا جال مارتا تھا جس میں بہت ساری چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آجاتی تھیں جن کو میں دیکھتا رہتا تھا ۔ کچھ  پرندے بھی اس آدمی کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے اور اپنا حصہ اس سے لے کر کھاتے رہتے تھے۔ ایک روز ہسنو جب ندی میں پوری طغیانی تھی پلیا سے ندی میں گر گیا۔دونوں جانی ہم سے بڑے تھے کسی ایک نے ایک دم ہاتھ مار کر اسے بالوں سے پکڑ لیا اور پھر ہمارا ندی پر جانا بند ہو گیا۔بابو جانی اور  میاں جانی اتنے بڑے تھے کہ بعد میں ابا جان کی ان سے خط و کتابت رہی وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں ابا کو پاکستان میں خطوط سے بتاتے رہے۔پھر زمانے کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے۔ابا جان ان کو باقی زندگی تلاش ہی کرتے رہےپینسٹھ سال بعد ہندوستاں بھی گئے کہ شائد ملاقات ہو جائے لیکن نہ ہو سکی ۔ نمعلوم ابا جان کو ان لوگوں سے کتنی محبت تھی کہ ان کے خطوط اور دوسرے دوستوں کے خطوط ساری عمر سنبھال کر رکھے۔اس زمانے سے ہی مجھے مچھلیوں اور ندی نالوں ،دریا ؤں  پرندوں اور قدرتی مناظر سے دلچسپی رہی جو آج تک ہے۔یہاں ایک دریا بھی تھا جس کا نام دریائے برہم پتر تھایایہ اس کی کوئی شاخ رہی ہوگی کیونکہ کبھی اس میں زیادہ پانی نہیں دیکھا۔میں اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ پانی میں نہیں جاتا تھا ۔میرے ساتھی اپنے کپڑےمیرے پاس رکھوا کر  پانی میں نہانے چلے جاتے تھے۔ایک بار سب کے کپڑے گم ہو گئے تھے جس پر مجھے خوب ڈانٹ بھی پڑی تھی۔یہاں ابا جان کے ساتھ پکنک منانے بھی  آجاتے تھے۔ایک جانب سے اباجان اور دوسری جانب سے میں دوپٹہ پکڑ کر مچھلیاں پکڑتے تھے۔ اس میں ننھی ننھی مچھلیاں آجاتی تھیں جن کو ہم لوٹے یا شائد کسی برتن میں رکھ لیتے تھے۔اس دوپٹے میں جو پانی کے قطرے نیچے گرتے تھے وہ ستاروں کی مانند  چمکتے بہت بھلے لگتے تھے ۔اب تک وہ سین یاد ہیں۔یہاں ابا کی محبت بھی یاد آتی ہے کہ کس طرح وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر اتنی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پکڑتے تھے۔یہ عالم پور کہاں تھا اب معلوم نہیں ۔

یہاں سے کچھ دور  دریا کے کنارے ایک مندر تھا۔اس پر   ایک میلہ بھی  دیکھا تھا۔میلہ تھا  یا ہندووں کی کوئی پوجا تھی۔اس میں بہت کچھ ہوگا لیکن جو مجھے یاد رہ گیا ہے وہ  یہ ہے کہ بہت سارے لوگ تھے۔دریا میں اور اس کے کنارے ان کے مہا پجاری یا سنیاسی یا جوگی وغیرہ اپنا کمال دکھا رہے تھے۔ ایک ببول کے کانٹوں کے کوئی تین فٹ موٹے بستر پر لیٹا تھا۔یہ کانٹے لمبے لمبے اور نوکدار تھے۔بستر کشتی نما تھا۔وہ اس پر ننگ دھڑنگ لیٹا تھا اور لوگ اس کے پاس رکھے کشکول میں  سکے ڈال رہے تھے ۔ ایک موٹا سا آدمی اپنا ایک ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھا۔یہ ہاتھ نمعلوم کتنے سال سے اوپر تھا کہ سوکھ  چکا تھا اور اس پر کوئی نو دس انچ لمبے ٹیڑھے میڑھے  ناخن بھی تھے۔ایک صاحب مادر زاد ننگے کھڑے تھے ان کے پیر بہت موٹے تھے ایسے جیسے جاپانی پہلوانوں کے ہوتے ہیں۔ وہ ٹانگیں چوڑی کر کے کھڑے تھے ۔انہوں نے اپنی پیشاب کی جگہ پر ایک سونے کا تالا بڑی بالی نما پرویا ہوا تھا۔ہندو عورتیں ان کے پاس اپنے بچوں کو لا رہی تھیں۔ایک پیالے میں دودھ لے کر اس پر ڈالتیں اور دوسرا پیالہ جو نیچے لگایا ہوا تھا اس میں وہ دودھ اکٹھا کر کے  بچوں کو پلا رہی تھیں۔ایک رشی مٹی میں مکمل دبے ہوئے تھے اور ان کے صرف ہاتھ باہر تھے جن کے پاس کشکول پڑا تھا۔اللہ جانے سانس کہاں سے لے رہےتھے۔یہ تو مذہبی قسم کے لوگ تھے۔اس کے علاوہ نٹ کا تماشہ دکھانے والے بھی تھے جو بانسوں پر چڑھ کر طرح طرح کے کرتب دکھا رہے تھے۔رسّوں پر چل رہے تھے۔بندر وں کی دو پہیوں کی چھوٹی سی  گاڑی تھی جس میں  چھوٹے بچوں کو بٹھا کر سیر کرا رہے تھے۔کئی بندر اس میں جوتےہوئے تھے۔ ہم تین بھائیوں میں سے صرف میں نے اس بندر گاڑی کی سواری کی باقی دونوں بندروں سے ڈر گئے تھے۔

حیدرآباد دکن کا اتنا یاد ہے کہ بڑی کوٹھی تھی نوکر چاکر اباجان کی افسری اور کلب جانا۔ہمیں اچھے بڑے ہونے کے باوجود  نوکر چاکر گود میں لے کر کلب جاتے تھے۔امی کلب میں ٹینس اور تاش کھیلتی تھیں۔گھر میں بڑا سا صحن سیڑھیوں   پر  چڑھنے کے بعد بڑا سا دالان ، گھر میں ہذامن فضلِ ربی کے تحت بہت سے پھل فروٹ ہر وقت بھرے رہتے تھے۔ کیلے کی ڈال اتنی بڑی ہوتی تھی کہ میرے قد سے بڑی۔اس میں کیلے پکتے رہتے اور ہم توڑ کر کھاتے رہتے۔  بہت بڑےسینگوں والےبیل پر رکھی  ایک بڑی مشک میں پانی آتا تھا ۔ شائد یہ مشک گائے کی کھال کی بنی ہوتی تھی۔تمام بچوں بڑوں کی الگ الگ چارپائیوں پر شام کو ہی مچھر دانیاں لگا دی جاتی تھیں۔شام کو ہی صحن میں چھڑکا ؤ کر دیا جاتا تھا۔صحن میں دھان کوٹنے والیاں  آتی تھیں اور بڑی بڑی اوکھلیوں میں دھان ڈال کر بڑےبڑے موصل سے  کوٹتی تھیں۔اس سے دھان سے چاول نکل آتا تھا۔ایک اوکھلی میں دو عورتیں  بڑے اور موٹےموصل مارتی تھیں۔ وہاں کے لوگ  چاول کے عادی تھے اور ہم لوگ آٹے کے عادی تھے۔امی ان کو چاول دے کر آٹا لے لیا کرتی تھیں۔ایک روز ایک گہرے ہرے  رنگ کا سیاہی مائل بچھو کسی نے مارا ہوا تھا اور صاحب یعنی ہمارے کے گھر لایا تھا۔یہ بچھو چپل کے جتنا بڑا تھا ۔امی نے اس کا نام چپل بچھو بتایا تھا۔لوگوں کے کہنے کے مطابق جس کو یہ بچھو کاٹ لے وہ مر جاتا ہے۔واللہ عالم۔

شمیم غوری کے لیپ ٹاپ سے ایک تحریر