Thursday, June 11, 2015

بندر کی شادی


ایک بندر نے اعلان کیا کہ وہ بندروں میں شادی نہیں کرے گا۔بڑے بندر نے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ اس نے کچھ دن ڈاکٹر سید اسلم کے روشندان کےپاس گزارے ہیں۔ وہ ہر ایک کو کہتے ہیں کہ کزن میرج سے بڑی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں بہت پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔تھیلی سیمیا کا مرض تو ہوتا ہی کزن میرج سے ہے۔ اس لئے اب میرے لئے کوئی دلہن کسی اور سپیشی کی تلاش کی جائے۔


میاں طوطے کو بڑا ناز تھا اپنی زبان دانی کا ۔ اسےیہ کام سونپا گیا۔وہ بندر کو لے کر خرگوش کے پاس گیا کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ بندر کو دے دے۔خرگوش نے اپنی تینوں بیٹیوں کو بلایا۔دو نے تو شرما کر انکار کر دیا۔ جو سب سے بدصورت کالی کلوٹی تھی،جس کا رشتہ ملنا مشکل تھا اس سے پوچھا تو کہنے لگی طوطے میاں کس کو لے آئے ہیں آپ، اس کی شکل دیکھی ہے بندر جیسی اور چلے آئے دم اٹھا کر رشتہ مانگنے۔ہمارے خاندان میں تو سب سے پہلے دُم دیکھتے ہیں۔چھوٹی دُم عقلمندی کی نشانی ہوتی ہے۔اتنی لمبی دم اللہ اللہ اس دُم نے تو جہالت کی انتہاء کر دی ہے نہ بابا نہ مجھے اپنی بے عزّتی خاندان میں نہیں کرانی۔جاکر کسی بن مانس کا دروازہ کھٹ کھٹاؤ یا کسی لنگور کے گھر کا راستہ دیکھو۔

سارے جنگل میں خبر پھیل گئی کہ بندر رشتہ مانگنے نکلا ہے۔ اسے دیکھ کر سب دورازے بند کر لیتے۔لنگور نے تو کہا کہ تمہاری دُم چھوٹی ہے ہمارے خاندان میں تو سب سے پہلے لڑکے کی دم ناپی جاتی ہے۔لمبی دم ہمارے لئے باعث فخر ہوتی ہے۔طوطے نے لاکھ سمجھایا کہ لڑکا خاندانی ہے۔ہنو مان جی سے اسکا نسب ملتا ہے۔اگر یہ ہندوستان میں ہوتا تو دیوتا ہوتا۔ہجرت کرکے گھر کا رہا نہ گھاٹ کا پرانے بسنے والے بندر پتھر مارتے ہیں ۔یہ اپنے نئے وطن کی محبت میں مہاجر ہو گیااور برباد ہو گیا، اپنے وطن میں ہوتا تو سب پوجتے،پھر بھی اس کی جائیداد میں تین آم کے درخت ،دو مونگ پھلی کے کھیت اور املی چیکو کے کئی درخت موجود ہیں جو اس کو کلیم میں ملے تھے۔خاندانی رشتے روز روز نہیں ملتے لیکن لنگور کی سوئی دم پر ہی اٹکی رہی۔ناچار واپس آگئے۔طوطے نے کہا کہ بھائی بندر دل چھوٹا نہ کیجئے۔ابھی بہت جانور باقی ہیں لنگور کو کہا ہم چلے چھوڑ تیرے محفل صنم ،دل کہیں نہ کہیں تو بہل جائے گا۔ 

اگلے دن نہا دھوکر نکلنے کا ارادہ کیا۔صبح سب سے پہلے ڈاکٹر سید اسلم کی ٹنکی پر گیا جو خالی تھی۔پھر علاقے کے کئی گھروں کی ٹنکیاں جھانکیں پانی نہ ملا۔ ناچار اپنے اصول توڑتے ہوئے ایک گھر کے اندر داخل ہو گیا۔زیور سونا رقم پیسے ٹکے سب کھلے رکھے تھے لیکن پانی کی بوتلیں تالے میں رکھی تھیں۔اسی تگ و دو میں شام ہو گئی۔ ایک جانب سے شور اٹھا ،دیکھا تو ہزاروں آدمی پانی سپلائی نہ ہونے پر احتجاج کر رہے تھےاور بینر لئے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا پانی پر سیاست بند کرو،کراچی کا پانی بحال کرو،آبادی کے لحاظ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کرو وغیرہ وغیرہ۔ ناچار طوطے کو ایس ایم ایس کیا کہ پروگرام کل پر رکھو۔ساری داستان موبائل بند{قلم بند کا دور نہیں }کی۔ جواب آیا کہ کچھ عقل استعمال کی ہوتی، رہے نہ بندر کے بندر۔ارے بھائی سائیں کے ہاؤس کا رخ کیا ہوتا۔پورا تالاب بھرا ہوتا ہے جم جم نہاؤ تیراکی کرو لیکن صبح بارہ بجے سے پہلے پہلےاس کے بعد سائیں جاگ جاتے ہیں۔اسی تالاب کے کنارے دَم لگاتے ہیں۔عوام کو پینے کا پانی نہ ملے لیکن سائیں کا تالاب روز تازہ بھرا جاتا ہے۔

اتنی کام کی بات بتانے پر بندر نے طوطے کا شکریہ ادا کیا۔اگلے دن خوب تیراکی کی نہایا اور سائیں کے شیشے میں اپنی شکل سنواری۔اپنے آپ کو بہت اچھا پایا اور خیال کیا کہ اب کوئی انکار نہیں کرے گا۔طوطا اسے لے کر گوریلے کے گھر گیا۔ گوریلے نے بڑی عزت سے بٹھایا کہ اس کی جاتی کے دور پرے کے رشتہ دار آئے ہیں۔کہیں سے آیا ہوا اونٹنی کا دودھ پلایا کہ اب شہر میں اس کا رواج ہے۔طوطے نے آنے کا مقصد بیان کیا۔ اس پر گوریلے نے کہا کہ میں قربان میری جان حاضر ہے لیکن میں برادری کے اصول سے نہیں ہٹ سکتا ورنہ میرا حقہ پانی بند ہو جائے گا اور ہماری یونین کا صدر میرے گھر پر موبائل جامر لگوادے گا۔بات یہ ہے کہ ہم گوریلوں میں دُم والوں کو رشتہ نہیں دیا جاتا۔اگر کوئی ایسا کرے تو کوئی اس کے ہاں رشتہ نہیں کرے گا میری تو خیر سے دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں میں کہاں سے ان کا رشتہ لاؤں گا۔ یہ تیسری جگہ تھی جہاں پھر دم آڑےآگئی۔بندر نے دل میں سوچا کہ لعنت ہو اس دُم پر۔

طوطا اپنی زباندانی کے باوجود رشتہ کرانے میں ناکام ہوگیا۔اس علاقے میں ایک کُٹنی رہتی تھی۔اس کا نام تھا کٹو گلہری۔اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس نے کہا کہ فیس میں ایک کلو مونگ پھلیاں لونگی۔بندر نے اپنے کھیت سے پیشگی فیس ادا کر دی۔اگلے دن گلہری طوطے اور بندر کو لے کر منگھو پیر کے تالاب لے گئی۔وہاں بڑے مگرمچھ جس کا نام مور تھا سے کہا کہ بندر رشتے کو آیا ہے۔کوئی مگرمچھنی دیکھو۔اس نے جواب دیا کہ ہمارے بڑے حب ندی میں رہتے ہیں۔ان سے رابطہ کرو۔اب یہ دونوں حب ندی گئے۔وہاں مگر مچھوں کے مکھیا نے ان کا رشتہ قبول کیا۔کئی مگرمچھنیاں دکھائیں۔بندر ان سب کو پسند تھا۔ایک مگر مچھنی کو بندر نے پسند کیا اور چاند کی چودھویں کو رات بارہ بجے شادی ہونا قرار پایا۔

بندر وقت مقرّرہ پر بارات لے کر گیا۔اس میں طوطا،کٹو گلہری،بندر کا خاندان ڈھول بجانے کے لئے گوریلا اور نکاح پڑھانے کے لئے الّو شامل تھے بارات کا استقبال 21 مگر مچھوں نے پانی پر دُم مار کر چھپاکے کیا۔خیر سے ایک من چھیچھڑوں کے مہر کے عوض یہ شادی ہو گئی اور بندر اپنی دلہن کو اپنے گھر لے آیا۔ کچھ دن بڑی محبت میں گزرے۔ ایک من چھیچھڑے قسط وار لا کر دئےاور مہر ادا کر دیا۔ اس دوران دلہن نے اکثر کہا کہ اسے بندر بہت پسند ہیں۔اس بات پر بندر پھولا نہ سماتا تھا۔مگرمچھنی نے میکے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بندر اسے لے کر حب ندی آیا۔ ایک جگہ سے ندی پار کرنے کے لئے  مگر مچھنی نے بندر کو اپنی کمر پر سوار کیا اور ندی کے نیچوں بیچ آکر کہا کہ اسے بندر بہت پسند ہیں۔ ایک غوطہ لگایا،بندر پانی میں گرا ۔دلہن نے ایک بار پھر کہا کہ اسے مگرمچھ بہت پسند ہیں۔ڈوبتے بندر کوچھپاک سے منہ میں دبایا اور چکڑ چکڑ کرکے کھا گئی۔اسے بندر بہت پسند تھے۔


ہم پاکستا نیوں کو بھی پاکستان بہت پسند ہے۔

****************

1 comment:

  1. ہاں ۔۔۔ مگر پاکستان بہت ہی ان لمیٹڈ پیکج بنایا ہے اللہ میاں نے ۔۔

    ReplyDelete