Thursday, July 14, 2016

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
موضوع بہت حساس ہےاور میں منٹو نہیں۔تجربات زندگی اگربیان نہ کئے جائیں تو  ایسا لگتا ہے کہ دل پر بوجھ لئے  راہئ عدم ہو جائیں گے اور  تحریری  کام میں کچھ تشنگی باقی رہ جائے گی۔
            شروع کرتا ہوں کراچی کے پلازہ سنیما کے بس اسٹاپ سے جہاں چلتی گاڑیوں پر بلوچ لڑکے بھاگ بھاگ کر گاڑی والوں کو کام کرنے کے لئے پکڑتےہیں۔دس پندرہ گاڑیوں پر ٹرائی کرنےکے بعد ایک آدھ گاڑی ہاتھ آجاتی ہے تو وہ اسے استاد کے حوالے کر کے  پھر سڑک پر نئے شکار کی تلاش میں بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔دن بھر یہ اپنی کچی بستیوں سے روزگار کی تلاش میں آکر شام کو چند روپے لے کر گھر جاتے ہیں ۔کسی دن کوئی شکار ہاتھ نہ آئے تو دوپہر کو کالو چھولے والے سے یا حاجی استاد کے دال چاول والے ٹھیلے سے کھا نا کھا کر خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔اگلے دن حساب کرتے ہیں۔اس ذکر کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

چین کے ایک  شہر کن منگ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ روٹی وہاں 5 یون کی تھی۔یعنی پاکستانی 80 روپے کی۔سوچا کہ  بیلن مل جائے تو خود روٹی پکا لیں۔اب بیلن بتائیں کیسے دکاندار کو سمجھائیں کیسے۔  زبان کا مسئلہ چین میں ہمیشہ سے پریشان کن رہا ہے۔قاہرہ میں بیٹی سے سیکھا تھا کہ جب پریشان ہوتے لوگوں کی طرف جا کربلند  آواز لگاتے   " ہیلو اینی باڈی نوز انگلش "  تو کوئی نہ کوئی مل جاتا اور مشکل آسان ہوجاتی۔ایک بازار جو اپنے جوڑیا بازار جیسا بھیڑ بھاڑ والا اور تنگ سا تھا اس میں بہتیری آوازیں  لگائیں کہ  " ہیلو اینی باڈی نوز انگلش " لیکن معاملہ حل نہ ہوا۔ایک چینی سیلز گرل کو بتایا اشارے سے سمجھایا کچھ سمجھ اسے نہ آیا۔ کاغذ پر بیلن بنایا  اسے سمجھ نہ آیا۔سوچا گول ڈنڈا سا مل جائے، ایک پائپ سا بناکر سمجھایا اور وہ سمجھ گئی اور خوب سمجھ گئی۔پاکستانیوں کو ٹورزم والے شہروں میں خوب سمجھا جاتا ہے۔بہت اچھی طرح جانا جاتا ہے۔
وہ بیچاری مجھے روائتی پاکستانی سمجھی اور ایک گلی میں لے گئی۔مجھ سے دس یون لئے اور ایک کاؤ نٹر پر دے کر مجھے اوپر بھیج دیا ۔سیڑھیوں میں ایک زندگی سے تھکے ہوئے  بڑے میاں مجھے پکڑ کراوپر ہال میں  لے گئے۔ایکدم اندھیرے میں جانے کی وجہ سےکچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہےمیں ڈر گیا کہ کسی مافیا نے اغوا کر لیا ہے۔ اندر اندھیرا سگریٹ اور شراب کی بو۔لائٹ  بتدریج آن ہوئی تو جوڑے جوڑے الگ الگ ہو گئے۔دیکھا  موسیقی کے ساتھ 40لڑکیاں سٹیج پر جا رہی تھیں۔ سٹیج پر ایسے کھڑی ہو گئیں  جیسے شو روم میں زندہ گڑیاں۔  کپڑوں کا ذرا یہاں کال تھا اور  حد ادب کے تقاضوں کے تحت بھی کم از کم اتنا تحریر ہے کہ   جوبن  باہر گرا پڑتا تھا۔چند منٹ کی لائٹ میں لگ بھگ بارہ لڑکیوں کو   گاہک مل گئے ،باقی سب محروم۔ تماش بین میری طرح  کھڑے ہیں یا بیٹھے ہیں اور ٹھرک جھاڑ رہے ہیں، آنکھیں سینک رہے ہیں۔10 یون وصول کر رہے ہیں۔ جو محروم رہ گئیں وہ ہم جیسوں کو پکڑ پکڑ کر اٹھا رہی ہیں اور ہم اٹھنے کو تیار نہ تھے ۔لائٹ بند ہو گئی   اور دس منٹ کی عملی ٹھرک یا عیاشی  شروع ہو گئی ۔زیادہ دل کیا تو سامنے والے دروازے سے  کیبن نما کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے چلے گئے ۔ اس کے پیسے کچھ زیادہ ہونگے ۔ مجھے پلازہ والے لڑکے یاد آگئےجو گاڑیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک جاتے ہیں اور بزنس نہیں ملتا۔ایسا ہی ان نازنینوں یا بغیر چلی گولیوں یا  پُھس ماچسوں کا حال تھا۔

ہم اپنے پاکستان میں اگر ایسی کوئی شے تلاش کریں تو اول تو ملنا مشکل دوسرے   کمیابی جس سے نخرے یا بے حیائی میں بھی کچھ حیا ءنظر آتی ہے۔ جس بات کا افسوس ہےوہ یہ کہ  اس محفل میں بے حیائی  میں بھی   بے عزتی اور محرومی ۔ نازنین ہیں  کہ حسرت و یاس کی تصویر بنی   باہیں پھیلا کر کھڑی  ہیں اور کوئی پوچھنے ولا نہیں۔پچاس نہیں تو بیس دے دو ورنہ دس دے دو۔اور سودا بھی چلو زیادہ لے لو۔چلو ایک کی جگہ دو کلو لے لو لیکن پھر بھی محروم۔پکڑ پکڑ کر منتیں کر رہی ہیں  کہ یار آجا، اٹھ جا ، ابے آتو سہی اور نتیجہ بس بیس پچیس فیصد۔حسرت و یاس کی بھوکی نگاہیں دیکھ کر لگتا تھا  کلیجہ پھٹ جائے گا ۔ایسی  وحشت ناک آنکھیں کہ یہ  وقفہ بھی خالی جا رہا ہے۔ان آنکھوں میں ساری کہانی نظر آتی تھی۔کسی سے آنکھ ملانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔لگتا تھا کہ اس سارے معاملے کا قصور وار میں ہوں۔ کیونکہ میں ایک مرد ہوں۔ایک مرد کی حیثیت سے ان کا یہ حال کیوں ہونے دیا میں نے۔میں ایک مسلمان ہوں۔میں نے اپنا وقت دین کی تبلیغ میں لگا کر ان جیسے معاشرے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا۔میں بس مسلمانوں کو ہی مسلمان بناتا رہا۔تبلیغ اور کلمے اپنے مسلمانوں کے ہی سیدھے کراتا رہا۔یہاں تک کیوں نہیں آیا۔ایسی ارزانی جنس  کبھی تصور تک میں نہ تھی۔ہوٹلوں میں  ا ن کے اشتہار اور فون نمبر عام رکھے ہوتے ہیں۔افسوس اور صد افسوس کہ صنف نازک جو قدرتی طور پر شرم حیا کا پیکر ہوتی ہیں ان کا ایسا برا حال۔جی چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور ہم سب اس میں غرق ہو جائیں۔
اتنے میں  مجھےبیلن اور روٹی یاد آگئی اور میں اس بدبودار بھنگڑخانے سے بھاگ نکلا۔ بھائی لوگواپنا پاکستان جیسا ہے بہت اچھا ہے۔یہاں دل کو کچوکے نہیں لگتے ۔ بس صرف دل جلتا ہے محرومیوں پر
بس مل گیا ہمیں بیلن اور ہم نے پکا لی روٹیاں۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں



No comments:

Post a Comment