Monday, March 26, 2018

چڑیل کی بیٹی


چڑیل کی بیٹی
گھرمیں تیاری ہو رہی تھی کہ میرے ابّا آرہے ہیں۔انکے لئےنئی چارپائی اور بستر تیار کیاگیا۔ولایت سے چار سال بعد آرہے تھے  ۔میں اس وقت پانچ سال کا ہونگا ۔آخر کار دوپہر کو دادا جاکر انہیں لے آئے۔ابا کے ساتھ ایک لڑکی تھی ۔سنہرے بالوں والی اور نیلی آنکھوں والی۔گھر میں میرے علاوہ کوئی بچہ نہ تھا ۔ ابا نے کہا کہ بیٹا یہ تمہاری بہن ہے۔اسے انگریزی میں بتایا کہ یہ تمہارا بھائی ہے۔وہ میری ہم عمر ہی تھی یا کچھ بڑی تھی۔وہ برادر برادر کہہ کر  مجھے پیار کرنے  لگی ۔ ہم کھانا کھا کر شام تک اکٹھے کھیلتے رہے۔ اس نے مجھے ایک تصویروں والی بہت اچھی گتے نما صفحوں والی  کتاب تحفے میں دی۔ اسے اردو اور مجھے انگریزی نہیں آتی تھی۔لیکن آپس میں ہم کئی گھنٹےبات کرتے رہے۔ اس نے مجھے اپنا ایک فوٹو بھی دیاجو اس  نے اپنے  ا سکول کے لئے کھنچوایا تھا۔اس میں وہ  بالکل پری لگ رہی تھی۔
رات کے کھانے کے بعد امی اور ابو میں لڑائی ہوتی رہی۔ہوتی ہی رہی جب تک ہم دونوں سو نہ گئے ہمیں ان کے لڑنےکی آوازیں  آتی ہی رہیں۔جب میں صبح اٹھا تو ابو اور  میری بہن گھر میں موجود نہیں تھے۔میں نے امی سے پوچھا کہ ابو کہاں گئے۔انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔میں نے کہا کہ انہوں نے سائیکل دلانے کا وعدہ کیا تھا لینے گئے ہونگے۔میرے بستر پر وہ کتاب رکھی تھی اور اس میں وہ تصویر۔میں  تصویر نکال کر دیکھنے لگا اور امی سے پوچھا کہ امی یہ کون ہے اتنے پیارے سنہری بالوں والی لڑکی؟ امی نے وہ تصویر  میرے ہاتھ سے لی اور کہا کہ یہ چڑیل کی  لڑکی ہے۔ چڑیل ہے  دور کرو اسے یہ تمہیں کھاجائے گی۔تصویر کے چار ٹکڑے کئے اورز مین پر پھینک دئے۔میں نے انہیں اٹھایا اور  اس کتاب میں رکھ کر اسکول چلا گیا۔
واپس آکر اس کتاب میں سے تصویر کے ٹکڑ ےنکال کر   جوڑا اور اسے کتاب میں رکھ کر کتاب چھپا دی کہ کہیں امی کی نظر نہ پڑ جائے۔کچھ دنوں بعد  ایک آدمی ایک بہترین چمکدار سائیکل لے کر آیا اور دادا جان سے میرا نام پوچھ کر  دادا جان کے دستخط لے کر سائیکل مجھے دے کر چلا گیا۔ابا جان نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔دادا دنیا چھوڑ گئے۔ابا جان نہ آئے۔ امی کے آگے تو ابا کا نام لینا قیامت تھا۔دادا بتاتے تھے کہ میرےابا نے ولایت میں شادی کی ہوئی تھی لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی اور یہاں شادی کر دی۔دادا کے بعد مجھے ابا جان کے بارےمیں بات کرنے کے لئے کوئی میسر نہ تھا۔امی نے میرے اسکول میں میرے باپ کے نام کے خانے میں اپنے باپ یعنی میرے نانا کا نام لکھوا دیا تھا۔امی کے مرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں تو اپنے باپ کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں۔اتہ پتہ تو کیا ملے گا نام تک معلوم نہیں۔بہن کو میں ہمیشہ یاد کرتا رہا۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت کہ بھلا نہیں سکتا تھا۔
آج میری بیٹی نے اسٹور میں سے وہ کتاب نکال کر پوچھا پاپا اس اینیمل بک میں یہ کس کی تصویر ہے اتنی پیاری سنہرے بالوں والی لڑکی۔میں جواب تو کیا دیتا۔مجھے وہ دن اور وہ خوشگوار ماحول یاد آگیا ۔ اس کا وہ پیار،وہ تحفہ وہ فوٹو،وہ امی کا چڑیل کی بچی کہہ کر تصویر پھاڑ دینا۔۔وہ دن خوشگوار تھا یا منہوس کہ اس دن کے بعد نہ زندگی میں کبھی ابا جان نظر آئے اور نہ وہ سنہرے بالوں والی آپاجان۔کاش ایک بار تو مل لیتا۔ والد صاحب اور بہن سے بس وہ پہلی اور آخر ی  ملاقات تھی۔میں نے تصویر لے کر دیکھی لگتا تھا مجھے ہی دیکھ رہی ہے۔جیسے کہ رہی ہو بھائی ایسے ہوتے ہیں۔
بچپن کی پڑھی ہوئی ایک کہانی سے ماخوذ۔
شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے

               


No comments:

Post a Comment