Thursday, May 5, 2016

غاروں کا شہر


بلوچستان میں بیلہ کے علاقے میں ایک پہاڑی ندی کے دونوں جانب کے پہاڑوں میں ایسے گھر پائے جاتے ہیں جن کو پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ یہ گھر اب ویران ہیں،ان میں آبادی نہیں ہے ۔انٹرنیٹ پر ان کے بارے میں مکھی پر مکھی ماری ہوئی ہے۔سب سے پہلے تو نام کی غلط فہمی ان غاروں تک ایک عام آدمی کو پہنچا ہی نہیں سکتی۔ گوندرانی، شہر غورغاں ,پرانے غاروں کا شہر، Baluchistan cave city حب سے لے کر بیلہ تک آپ انٹر نیٹ کے یہ نام لے لے کرتھک جائیں گے لیکن کوئی بھی اس نام سے ان کا پتہ نہیں جانتا۔حد تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھا انہیں بھی ان ناموں سے کوئی واقفیت نہیں۔ایک ڈاکٹر صاحب سے بھی مایوسی ہوئی۔ایک جگہ نیٹ کے سگنل آگئے تو تصویر دکھا کر پوچھا تو پتہ چلا کہ اس جگہ کو مائی پیر سے کہتے ہیں اور ایک جگہ جب مائی پر کا بورڈ پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ لفظ ماہی پیر ہے۔ماہی پیر کو سب جانتے ہیں۔

آر سی ڈی ہائی وے پر کراچی سے چلتے ہوئے پہلے حب شہر آتا ہے یہاں چائے پراٹھا ،ملائی ،انڈہ اور چھولے ناشتے میں دستیاب ہیں ۔پھر 47 کلومیٹر پر وندر شہر آتا ہے۔یہاں آپ چائے پیجئے یا جاموٹ لسی ہاؤس پر لسی پینے کے مزے لیجئے۔یہاں سے 35 کلو میٹر پر زیرو پوائینٹ واقع ہے۔اس پوائنٹ پر ہوٹل کے ساتھ بنے اسٹور پر ایران کے بنے ہوئے بسکٹ اور تازے کیک بچوں بڑوں کے لئے بہترین ریفریشمنٹ ہے۔ زیرو پوائینٹ سے ایک سڑک بائیں جانب بلوچستان کوسٹل ہائی وے گوادر کو جاتی ہے- اس پر مشہور زمانہ نانی ہنگلاج،چندر گپ اور ملیر کنڈ کے مذہبی اور تفریحی مقامات واقع ہیں۔ان سے اور آگے بزی پاس ہے جو اپنی خوبصورتی اور قدرتی طور پر بنی اشکال کی وجہ سے مشہور ہے۔زیرو پوائینٹ سے سیدھے آر سی ڈی ہائی وے پر چلیں تو 15 کلو میٹرپر اہم شہر اوتھل آجاتا ہے۔اس سے آگے 56 کلو میٹر پر بیلہ کراس واقع ہے۔یہیں بیلہ شہر ہے۔اس سے مزید 25 کلو میٹر چلیں تو بائیں جانب ایک راستہ ان غاروں کو جاتا ہے۔یہاں سڑک کے دائیں جانب ایک بورڈ لگا ہے جس پر درگاہ ماہی پیر شہر روگاں 8 کلو میٹر لکھا ہوا ہے۔یہاں سے پانچ کلو میٹر پر ایک موڑ سے کچا راستہ شروع ہوتا ہے جو ایک برساتی دریا کے پیٹ سے گزرتا ہوا ہمیں ان ویران غاروں کی بستی میں پہنچا دیتا ہے۔یہیں ماہی پیر کا مزار ہے جس کی لوح پر لکھا ہے مرحومہ بی بی سومری عرف بی بی بروجانی۔

یہ غار قدرتی نہیں ہیں۔ان کو انسانوں یا انسان نما کسی مخلوق نے گریول کے بنےپہاڑوں کو کاٹ کاٹ اپنی رہائش گاہیں بنائی ہیں۔ گریول یا بجری کے بنے پہاڑوں کو ان کے بھربھرے پن کی وجہ سے کاٹنا نسبتاَ َ آسان ہوتا ہے۔ ان میں ایک بستر کے برابر سے لے کر 20 مربع گز تک کے غار بنے ہوئے ہیں۔کچھ میں ایک دالان باہر کی جانب ہے اس کے اندر کی جانب ایک یا دو کمرے بنا کر ان کا راستہ دالان سے ہے۔کچھ صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔کمروں کے اندر کی جانب چونے اور چکنی مٹی کو ملا کر پلستر کیا گیا ہے۔بیشتر غاروں کی چھت کا پلستر با قی ہے۔دیواروں اور فرش میں کہیں کہیں پلستر نظر آتا ہے۔دیواروں میں چراغ یا سامان رکھنے کے لئے طاق بھی بنےہوئے ہیں۔اندر فرش پر کہیں کہیں چبوترے بھی بنے ہوئے ہیں۔مقامی باشندوں کے کہنے کے مطابق ان غاروں میں کبھی مورتیاں بھی رکھی ہوتی تھیں جو چرا لی گئیں۔غارو ں کو خزانے کی تلاش والوں نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔

بلوچستان کے ان غاروں کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے کہ دیا گیا کہ یہ بدھ مت کے دور کے بھکشووں کے رہنے کے گھر ہو سکتے ہیں۔اس مقام سے پہاڑی راستے سے کوئی ڈیڑھ سو کلو میٹر پر نانی ہنگلاج کا قدیم وعظیم تاریخی پس منظر رکھنے والا مندر موجود ہے۔میرے خیال میں یہ غار انہی لوگوں نے بنائے ہیں جن کی اگلی نسلوں نے بعد ازاں ہنگلاج میں مندر بنایا۔یہ دو ہزار سال تک پرانے ہو سکتے ہیں۔اگر ان کے اندر کے پلاسٹر کا کاربن ڈیٹننگ ٹیسٹ تو کرایا جائے تو ان صحیح تاریخ پتہ چل سکتی ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ ایسے تاریخی آثار قدیمہ کو کسی شمار میں ہی نہیں رکھا گیا۔نہ کوئی ان کا راستہ جانتا ہے،نہ کسی مقامی کو ان کی اہمیت کا پتہ ہے،نہ محکمہ آثار قدیمہ کو ان سے دلچسپی ہے،نہ انہیں قومی ورثہ یا عالمی ورثہ میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان سرکار کو اس کی فکر نہیں،بلوچستان سرکار کو بھی اس سے کوئی واسطہ نہیں، مقامی لوگ بس یہ جانتے ہیں کہ یہاں ماہی پیر کی درگاہ ہے۔سرپھرے آوارہ گرد یہاں چلے آتے ہیں ایسی جگہیں تلاش کر لیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بتا دیتے ہیں اور استادی کے ماہرین اسے سرقہ کر کے اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔چند لائینیں اندازے سے بڑھا دیتے ہیں یہیں سے غلطی او رمکھی پرمکھی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔یہ غار پکنک کی بہترین جگہ ہیں۔کار کا راستہ ایک جگہ سے تھوڑا الگ ہوجاتا ہے۔لیکن تھوڑی دور واک کرنے پر ان غاروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔بائیک پر تو سیدھے ان تک پہنچا جا سکتا ہے۔راستہ سیدھا صاف اور محفوظ ہے۔وندر سے لے کر بیلہ کراس تک ہوٹل ہیں جہاں کھانا چائے پانی برف میسر ہے۔غاروں کے اس شہر کے پاس ایک بہتی ندی کا پانی فیملی کے نہانے اور تیراکی کے لئے محفوظ ہے۔ندی میں کئی جگہ پر اتھلے پانی کے تالاب ہیں جن میں ٹھنڈا میٹھا پانی بھرا ہوا ہے جن میں ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں ۔ ان میں موجود مچھلیاں بچوں بڑوں کے لئے انتہائی دلچسپی کا سامان ہیں۔ ان کو خوراک ڈالیں تو یہ خوب چھین چھین کر کھاتی ہیں اور بچے خوش ہوتے ہیں۔صبح سویرے جاکر رات تک واپس آیا جا سکتا ہے۔حب سےان کا فاصلہ 186 کلومیٹر ہے۔

میری تمام مہم جو افراد،بائیکرز، تاریخ اور آثارقدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں،اپنے بچوں کو ”جہاں کوئی نہ ہو” والی پکنک کرانے والوں کو دعوت عام ہے کہ وہ اس جگہ جاکر انجوائے کریں۔بہت کم آثار قدیمہ ایسے ہوتے ہیں جہاں ان کے ۔
ساتھ پکنک پوائنٹ بھی ہو اور بچے بڑے سب لطف اندوز ہو سکیں۔کھانے پینے کے شوقین حضرا ت کے لئے یہ جنت ہے۔
راستے سے سستا بکرا لیجئے اور کاٹ کرسجی بنا کر کھائیے۔راستے میں لکڑی بہت ہے۔ہمت ہونی چاہیے۔





  

1 comment:

  1. I have visited this place many times really its amazing..

    ReplyDelete