Wednesday, July 19, 2023

ہندوستان میں بچپن کی یادیں

 

ہندوستان

کچھ کچھ یاد آتا ہے کہ ایک ندی تھی اس میں کچھ پانی چل رہا ہوتا تھا۔ یہ عالم پور تھا ۔میں اپنے دوستوں ہسنو ،میاں جانی اور بابو جانی کے ساتھ اس ندی پر جاتا اس کی پلیا کے پاس ایک مچھیرا جال مارتا تھا جس میں بہت ساری چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آجاتی تھیں جن کو میں دیکھتا رہتا تھا ۔ کچھ  پرندے بھی اس آدمی کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے اور اپنا حصہ اس سے لے کر کھاتے رہتے تھے۔ ایک روز ہسنو جب ندی میں پوری طغیانی تھی پلیا سے ندی میں گر گیا۔دونوں جانی ہم سے بڑے تھے کسی ایک نے ایک دم ہاتھ مار کر اسے بالوں سے پکڑ لیا اور پھر ہمارا ندی پر جانا بند ہو گیا۔بابو جانی اور  میاں جانی اتنے بڑے تھے کہ بعد میں ابا جان کی ان سے خط و کتابت رہی وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں ابا کو پاکستان میں خطوط سے بتاتے رہے۔پھر زمانے کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے۔ابا جان ان کو باقی زندگی تلاش ہی کرتے رہےپینسٹھ سال بعد ہندوستاں بھی گئے کہ شائد ملاقات ہو جائے لیکن نہ ہو سکی ۔ نمعلوم ابا جان کو ان لوگوں سے کتنی محبت تھی کہ ان کے خطوط اور دوسرے دوستوں کے خطوط ساری عمر سنبھال کر رکھے۔اس زمانے سے ہی مجھے مچھلیوں اور ندی نالوں ،دریا ؤں  پرندوں اور قدرتی مناظر سے دلچسپی رہی جو آج تک ہے۔یہاں ایک دریا بھی تھا جس کا نام دریائے برہم پتر تھایایہ اس کی کوئی شاخ رہی ہوگی کیونکہ کبھی اس میں زیادہ پانی نہیں دیکھا۔میں اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ پانی میں نہیں جاتا تھا ۔میرے ساتھی اپنے کپڑےمیرے پاس رکھوا کر  پانی میں نہانے چلے جاتے تھے۔ایک بار سب کے کپڑے گم ہو گئے تھے جس پر مجھے خوب ڈانٹ بھی پڑی تھی۔یہاں ابا جان کے ساتھ پکنک منانے بھی  آجاتے تھے۔ایک جانب سے اباجان اور دوسری جانب سے میں دوپٹہ پکڑ کر مچھلیاں پکڑتے تھے۔ اس میں ننھی ننھی مچھلیاں آجاتی تھیں جن کو ہم لوٹے یا شائد کسی برتن میں رکھ لیتے تھے۔اس دوپٹے میں جو پانی کے قطرے نیچے گرتے تھے وہ ستاروں کی مانند  چمکتے بہت بھلے لگتے تھے ۔اب تک وہ سین یاد ہیں۔یہاں ابا کی محبت بھی یاد آتی ہے کہ کس طرح وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر اتنی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پکڑتے تھے۔یہ عالم پور کہاں تھا اب معلوم نہیں ۔

یہاں سے کچھ دور  دریا کے کنارے ایک مندر تھا۔اس پر   ایک میلہ بھی  دیکھا تھا۔میلہ تھا  یا ہندووں کی کوئی پوجا تھی۔اس میں بہت کچھ ہوگا لیکن جو مجھے یاد رہ گیا ہے وہ  یہ ہے کہ بہت سارے لوگ تھے۔دریا میں اور اس کے کنارے ان کے مہا پجاری یا سنیاسی یا جوگی وغیرہ اپنا کمال دکھا رہے تھے۔ ایک ببول کے کانٹوں کے کوئی تین فٹ موٹے بستر پر لیٹا تھا۔یہ کانٹے لمبے لمبے اور نوکدار تھے۔بستر کشتی نما تھا۔وہ اس پر ننگ دھڑنگ لیٹا تھا اور لوگ اس کے پاس رکھے کشکول میں  سکے ڈال رہے تھے ۔ ایک موٹا سا آدمی اپنا ایک ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھا۔یہ ہاتھ نمعلوم کتنے سال سے اوپر تھا کہ سوکھ  چکا تھا اور اس پر کوئی نو دس انچ لمبے ٹیڑھے میڑھے  ناخن بھی تھے۔ایک صاحب مادر زاد ننگے کھڑے تھے ان کے پیر بہت موٹے تھے ایسے جیسے جاپانی پہلوانوں کے ہوتے ہیں۔ وہ ٹانگیں چوڑی کر کے کھڑے تھے ۔انہوں نے اپنی پیشاب کی جگہ پر ایک سونے کا تالا بڑی بالی نما پرویا ہوا تھا۔ہندو عورتیں ان کے پاس اپنے بچوں کو لا رہی تھیں۔ایک پیالے میں دودھ لے کر اس پر ڈالتیں اور دوسرا پیالہ جو نیچے لگایا ہوا تھا اس میں وہ دودھ اکٹھا کر کے  بچوں کو پلا رہی تھیں۔ایک رشی مٹی میں مکمل دبے ہوئے تھے اور ان کے صرف ہاتھ باہر تھے جن کے پاس کشکول پڑا تھا۔اللہ جانے سانس کہاں سے لے رہےتھے۔یہ تو مذہبی قسم کے لوگ تھے۔اس کے علاوہ نٹ کا تماشہ دکھانے والے بھی تھے جو بانسوں پر چڑھ کر طرح طرح کے کرتب دکھا رہے تھے۔رسّوں پر چل رہے تھے۔بندر وں کی دو پہیوں کی چھوٹی سی  گاڑی تھی جس میں  چھوٹے بچوں کو بٹھا کر سیر کرا رہے تھے۔کئی بندر اس میں جوتےہوئے تھے۔ ہم تین بھائیوں میں سے صرف میں نے اس بندر گاڑی کی سواری کی باقی دونوں بندروں سے ڈر گئے تھے۔

حیدرآباد دکن کا اتنا یاد ہے کہ بڑی کوٹھی تھی نوکر چاکر اباجان کی افسری اور کلب جانا۔ہمیں اچھے بڑے ہونے کے باوجود  نوکر چاکر گود میں لے کر کلب جاتے تھے۔امی کلب میں ٹینس اور تاش کھیلتی تھیں۔گھر میں بڑا سا صحن سیڑھیوں   پر  چڑھنے کے بعد بڑا سا دالان ، گھر میں ہذامن فضلِ ربی کے تحت بہت سے پھل فروٹ ہر وقت بھرے رہتے تھے۔ کیلے کی ڈال اتنی بڑی ہوتی تھی کہ میرے قد سے بڑی۔اس میں کیلے پکتے رہتے اور ہم توڑ کر کھاتے رہتے۔  بہت بڑےسینگوں والےبیل پر رکھی  ایک بڑی مشک میں پانی آتا تھا ۔ شائد یہ مشک گائے کی کھال کی بنی ہوتی تھی۔تمام بچوں بڑوں کی الگ الگ چارپائیوں پر شام کو ہی مچھر دانیاں لگا دی جاتی تھیں۔شام کو ہی صحن میں چھڑکا ؤ کر دیا جاتا تھا۔صحن میں دھان کوٹنے والیاں  آتی تھیں اور بڑی بڑی اوکھلیوں میں دھان ڈال کر بڑےبڑے موصل سے  کوٹتی تھیں۔اس سے دھان سے چاول نکل آتا تھا۔ایک اوکھلی میں دو عورتیں  بڑے اور موٹےموصل مارتی تھیں۔ وہاں کے لوگ  چاول کے عادی تھے اور ہم لوگ آٹے کے عادی تھے۔امی ان کو چاول دے کر آٹا لے لیا کرتی تھیں۔ایک روز ایک گہرے ہرے  رنگ کا سیاہی مائل بچھو کسی نے مارا ہوا تھا اور صاحب یعنی ہمارے کے گھر لایا تھا۔یہ بچھو چپل کے جتنا بڑا تھا ۔امی نے اس کا نام چپل بچھو بتایا تھا۔لوگوں کے کہنے کے مطابق جس کو یہ بچھو کاٹ لے وہ مر جاتا ہے۔واللہ عالم۔

شمیم غوری کے لیپ ٹاپ سے ایک تحریر

No comments:

Post a Comment