Monday, June 15, 2015

پاربتی پور کا بوڑھا


ایک بوڑھا پاربتی پور میں ایک تالاب کے کنارے رہتا تھا۔اس کے باپ نے بانسوں کی بنی ہوئی ایک جھونپڑی ،تین چھالیہ کے درخت اور دو دڑبے اس کے لئے چھوڑے تھے جو اس کی کل کائنات تھی ۔ تالاب کے کنارے کچھ کیلے کے درخت تھے جن سے مچھلی کیلے کا سالن پکا لیتے یا محلے والے مانگ کر لے جاتے۔ ۔ایک بڑا دڑبہ اور ایک چھوٹا۔چھوٹے دڑبے میں کچھ بطخیں تھیں جو اس کی روزی کا کچھ ذریعہ تھیں ۔
بڑے دڑبے میں اس کی چار بیٹیاں پل کر جوان ہوئیں اور اپنے گھروں کو سدھاریں۔ ۔جھونپڑی میں رہ گئے بوڑھا اور اس کی بڑھیا۔صبح صبح تالاب سے چھ سات مچھلیاں پکڑتا اور بطخوں کے انڈے اٹھاتا ۔۔جاکر ہاٹ میں بیچ آتا۔واپسی میں کچھ کھانے کا سامان لے آتا۔کبھی پرچون والا بڑی رہو مچھلی منگا لیتا تو بدلے میں کچھ دن کا راشن مل جاتا۔کبھی کپڑے والے کو دو تین مچھلیاں دے کر اپنی لنگی اور بڑھیا کی ململ کی ساڑی لے آتا سال کے سال چھالیہ کے پھل سے کچھ آمدنی ہو جاتی ۔ ۔ بطخوں کے انڈےکبھی زیادہ کبھی کم،لیکن کام چل رہا تھا۔ دن بڑے پرسکون گزر رہے تھے کوئی بیٹی اپنے آٹھ دس بچوں کے ساتھ آجاتی تو واپس جاتے ہوئے مچھلی اور انڈے بھی ساتھ لے جاتی۔

ایک سال چھالیہ کے درختوں نے پھل نہ دیا،تالاب میں مچھلیاں بھی کم ہو گئیں اور بطخوں نےانڈے دینے کم کر دئیے اور مرنے لگیں۔ چند ماہ میں نوبت فاقوں تک آنے لگی۔کچے کیلے ابال کر کھانے لگے۔ اس کی ایک بیٹی رانی سندری اس کے گھر آئی ۔حالات دیکھ کر ماں سے کہا کہ لگتا ہے کسی نے کچھ کرا دیا ہے۔ اس کے علاقے میں ایک پہنچا ہوا تانتر شانترعالم ہے،چلو اس سے معلومات کرتے ہیں۔بوڑھا اس عالم تانتر شانتر کے پاس گیا تو اس نے ایک کالا بکرا دان کے لئے مانگا۔بوڑھے نے کہا کہ میرے پاس تو صرف ایک دو بطخیں رہ گئی ہیں،وہی لا سکتا ہوں۔تانتر شانتر نےدو بطخیں لے کر جاپ تاپ تپسیا کرنے کے لئے اترتے چاند کی تین راتوں کا وقت لیا اور دو ہفتوں بعد بلایا۔کیونکہ ابھی تو چڑھتا چاند تھا۔

بوڑھا بڑھیا وقت پر تا تنتر شانتر کے پا س گئے۔ اس نے کیلے کا ایک گچھا قبول کرتے ہوئے حکم دیا کہ کسی بہت پہنچے ہوئے نیک آدمی کا اترا ہوا پرانا کپڑا لو اور اس کے ٹکڑے کر کے تالاب میں ڈالو ،چھالیہ کے درخت پر لٹکاؤاور بطخوں کے دڑبے پر ٹانگ دو اور پھر کمال دیکھو ،یاد رکھنا کہ میرا علم دارجلنگ سےہمالیہ کی چوٹی تک اور کشمیر سے راسکماری تک سیدھا نشانہ لگاتا ہے اس کی سچائی پر شک کرنے والا انتہائی بدبخت ہوگا اور کبھی کامیاب نہ ہوگا ۔بوڑھا بیچارہ پیدل پیدل بہت دور پوچھتا پوچھتا ایک نیک آدمی کے پاس گیا۔ اس سے اس کی پرانی لنگی مانگی۔اس نے وجہ پوچھی ،بوڑھے نے معاملہ بتایا تو اس نیک آدمی نے پرانی بوسیدہ لنگی کے نئی لنگی سے زیادہ پیسے مانگے۔بوڑھے نے اعتراض کیا تو اس نے کہا کہ ہماری لنگی تو بڑ ے بڑے نواب لے جاتے ہیں ان کاموں کے لئے۔ناچار بوڑھے نے کسی نہ کسی طرح پیسے دے کر لنگی لی۔بڑی امید سے اس کے ٹکڑے حسب ہدایت چھالیہ کے درختوں پر اور دڑبے پر لٹکائے اور تالاب میں ڈالے۔ایک جوڑا بطخوں کا خرید کر چھوٹے دڑبے میں ڈالا۔ایک ماہ تک انتظار کیا لیکن سب بے سود۔ تا تنتر شانتر کو کہا تو اس نےکہا کسی نیک آدمی کا پہنا ہوا کپڑا استعمال کرو۔اسے بتایا کہ بھائی بہت نیک آدمی سے کپڑا لایا تھا۔ کہنے لگا جو پرانی لنگی کے پیسے لے لے وہ نیک کہاں سے ہوا۔

بوڑ ھے کے دل کو بات بھا گئی۔پھر کسی نیک کی تلاش میں نکلا جمعہ کا دن تھا۔نماز پڑھنے جامع مسجد میں چلا گیا۔ خطبہ ہو رہا تھا ۔امام صاحب بڑی اچھی اچھی نیکی کی باتیں بتا رہے تھے۔جنت ایسے ملیت ہے ایک دوسرے سے محبت کرو ،ایک دوسرے کے کام آؤ۔ بوڑھے نے جانا کہ بس یہی ایک نیک آدمی ہے دنیا میں۔بس اس سے کوئی پرانا کپڑا مانگ لیتا ہوں۔ بوڑھے نے نماز کے بعد ان سے ر ابطہ کیا تو انہوں نے فقیر سمجھ کر کہا بابا معاف کرو۔ پیچھے پیچھے ان کے حجرے میں گیا تو ایک خلقت جمع تھی اور وہ پیسے لے لے کر تعویز دے رہے تھے۔سارے مردوں کو جلدی جلدی تعویز دے کر روانہ کیا اور اب عورتوں کی باری آنی تھی۔بوڑھے سے معاملہ پوچھا اور مدعا سن کر کہا کہ تمہارے اوپر اسی لئے جادو ہو گیا ہے کہ تم نے اپنے پرانے کپڑے سنبھال کر نہیں رکھے۔بیوقوف سارا جادو پہنے ہوئے پرانے کپڑوں پر ہی ہوتا ہے ،جان نہ پہچان میں کیسے تمہیں اپنے کپڑے دے دوں۔کیاپتہ تم مجھ پر کیا جادو کروا دو ۔نہ بابا نہ میں باز آیا ایسی نیکی سے۔ ہاں کہتے ہو تو میں تمہیں تعویز دے دیتا ہوں۔سب جادو کاٹ دے گا۔سوا روپیہ ہدیہ ہوگا۔ایک کلو جلیبی جنّات کو کھلانے کے لئےالگ سے لانی ہوگی۔ بوڑھے نے سوچا چار آنے کی جلیبی اور سوا روپیہ تعویز کا۔اتنی بڑی رقم تو اس سے نہیں ہو سکتی۔بیچارہ گھر آگیا۔

بڑھیا نے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور خاموشی سے کالی چائے بنا کر دی۔چائے پی کر بوڑھے کے اوسان بجا ہوئے تو اس نے ساری داستان بڑھیا کو سنادی۔دونوں نے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں آدھی صدی گزاری تھی ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ مل جل کر فیصلہ کیا کہ اب دونوں پیدل پیدل سید حاجی پیر کے مزار کی طرف جاتے ہیں ان کا عرس ہونے والا ہے ایک ہفتے میں پہنچ جائیں گے۔وہاں بڑَ ےبڑے نیک لوگ ہونگے۔ کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ اپنا پرانا پہنا ہوا کپڑا دے دے گا۔

جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل 

 مسافر صبح اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے


بڑھیا نے کچھ چاول ساتھ باندھ لئے۔ بڑَے میاں نے ایک ہنڈیا انگرچھے میں باندھ کرلاٹھی میں لٹکا لی۔منہ اندھیرےدونوں چل دئیے۔ ایک ہفتہ چلتے ر ہے کبھی کسی گھاٹ پر رک کر چاول پکا لئے کبھی کسی درخت کے نیچے ڈیرہ لگا لیا۔ آخر کار سید حاجی پیر کے مزار پر وقت پر پہنچ گئے۔بڑے بڑے حاجی،الحاج،پیر فقیر،مرشد کامل،علماء،مشائخ،صوفیاءعرس میں موجود تھے۔منکے والی سرکار ،لاکھ دانہ تسبیح والے بابا جن کی تسبیح کو دس خدّام تھامے ہوئے تھے، ولی ِاے دوراں،بڑے بڑے خلیفہ اور گدی نشین وہاں موجود تھے۔ان میں وہ بھی تھے جو اپنی پہنی ہوئی چادریں بڑی کی تعداد میں لوگوں میں بانٹ رہے تھے۔ چار دن کے عرس میں بڈھے اور بڑھیا نے ان عالی نسب نیک لوگوں کی بیس چادریں اکٹھی کر لیں۔بلاشبہ یہ نیک لوگ تھے۔چادریں بے شک پچھلے سال سے اب تک مزارپر چڑھائی گئی والی تھیں لیکن گردن میں پہن کر تو اتاری جارہی تھیں۔ اب تو بڈھے بڑھیا کی مرادیں بر آنے میں کوئی شک نہیں تھا۔اس کے باوجود ایک ولی ِکامل سے اپنا مدعا بیاں کر دیا۔ وہ ایسا ولی تھا کہ اس نے بڈھے کو اسی وقت اپنا لباس اتار کر دے دیا اور ایک چادر باندھ کر چل دیا۔سات دن کا راستہ خوشی خوشی چھ دن میں طے کیا ۔ گھر آکر تمام کپڑوں کے ٹکڑے دڑبے تالاب اور چھالیہ کے درختوں پر ڈال دئے اور لگے انتظار کرنے۔ دن ہفتے مہینے گزرے۔معاملہ وہیں کا وہیں۔نہ کوئی مچھلی تالاب میں ملی نہ چھالیہ میں پھول آیا اور جو چار بطخیں دڑبے میں ڈالی تھیں ان میں سے بھی دو مر گئیں۔اب تو کیلے کے پودے بھی مرجھا گئے۔ تانتر شانتر کے پاس بوڑھا پھر شکایت کرنے گیا ۔اس نے صاف صاف کہا کہ تمہارا معاملہ سوائے اس کے کہ کسی اللہ 
کے نیک بندے کا اترا ہوا کپڑا ڈالا جائے حل نہیں ہو سکتا۔ناچار واپس آگیا۔

اس کی بیٹی رانی سندری کچھ مدد کر دیتی تھی جو گزارا چل رہا تھا۔ایک دن رانی سندری آئی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ ابا آپ بھی تو اللہ کے نیک بندے ہیں۔اماں سے کہا ابا کی کوئی پرانی لنگی مجھے دیجئے۔ماں نے لادی۔ سندری نےاس کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا دڑبے پر ڈالا،ایک تالاب میں ڈالا،کچھ چھالیہ اور کیلے کے درختوں پر باندھ دئیے۔ بوڑھا کہتا رہا بیٹی میں نے کیسے کیسے عالم فاضل ،مولوی ملاّ۔نیک حاجی، خلیفہ گدی نشینوں،، اماموں کے کپڑے ڈالے کچھ نہ ہوا۔ مجھ گناہگار کے کپڑوں سے کیا ہوگا۔ دل میں سوچا مجھ گناہگار کو یہ بیٹی کتنا نیک سمجھ رہی ہے۔ بیٹی ہے نا آخر۔ جاکر مسجد میں توبہ کی اپنے چھوٹے بڑے گناہوں کی معافی مانگی۔اللہ سے کہا کہ میں تو گناہگار ہوں،بیٹی کے مان کی اللہ میاں لاج رکھ لے۔ایک ہفتے میں تو کایا ہی پلٹ گئی۔تالاب میں صبح صبح سینکڑوں دائرے بننے لگے،کیلے کے درختوں پر بہار آگئی،چھالیہ میں پھول نظر آنے لگے اورڈربہ جس کو دیکھنا ہی چھوڑا ہوا تھا اس میں سےایک بطخ اپنے چھ بچوں کے ساتھ پخ پخ کرتی صحن میں چلی 
آرہی تھی۔

بنگال سے آمدہ چھوٹی سی کہاوت کا ری میک
شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے

1 comment:

  1. السلام علیکم ۔۔۔آپ کی داستان گوئی اچھی لگی۔۔۔۔میری درخواست ہے کہ کہ حقیقی کہانیوں اور حقیقی کرداروں کی طرف بھی توجہ دیں۔۔۔

    ReplyDelete