Thursday, June 25, 2015

کولہو کا بچہ: ماخوذ

ایک موتیوں کا بیوپاری تھا ۔سالہا سال سے موتی بیچتا تھا ۔عمر رسیدہ نیک آدمی تھا ۔ نزدیکی ممالک کے جن شہروں میں جاتا وہاں کے نامور موتی فروش اسے جانتے تھے۔ اصلی موتی بیچتا تھا ۔ ۔ تجارت کے لئے ساری عمر گھوڑے پر سفر کیا۔ایک روز وہ سراندیپ کے موتی لے کر ملک بے لگام کے شہر شہر بے چراغ جارہا تھا۔راستے میں رات ہو گئی۔اس کی گھوڑی بھی کچھ بے چین تھی ،سو اس نے ایک راستے کی بستی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ تیلیوں کی بستی تھی۔نام تھا اس بستی کا تیل پور۔تیل پور کے مکھیا نے بیوپاری کو اپنے گھر میں ٹھہرایا اور جو خدمت ہو سکتی تھی وہ کی۔
رات کو دونوں بیری کے درخت کے نیچے سرسوں کے کھیت میں سوئے ہوئے تھے ۔ آدھی رات کو مکھیا کے نوکروں نے آ کر اطلاع دی کہ بیوپاری کی گھوڑی نے ایک بہت خوبصورت پیارا سے سفید بچہ دیا ہے۔بیوپاری نے سوچا کہ بچے کو ساتھ رکھ لونگا چند دن میں جب یہ ماں کے بغیر رہنے کے لائق ہو جائے گا تو واپسی پر اس تیلی کو ہی دے دونگا۔صبح ہوئی تو بیوپاری نے اجازت چاہی اور تیلی سے کہا کہ اس کی گھوڑی اور بچہ لادیں تو وہ شہر بے چراغ چلا جائے۔تیلی کے نوکر نے گھوڑی لا کر بیوپاری کے حوالے کردی۔ نوکر کچھ دیر تک جب گھوڑی کا بچہ نہیں لایا تو بیوپاری نے کہا کہ بچہ بھی لادیں تو میں سفر کا آغاز کروں۔ اس پر تیلی نے کہا کہ بچہ تو اس کے کولہو نے دیا ہے۔بیوپاری نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کولہو بھی بچہ دیتے ہیں۔ارے گھوڑی بچہ دیتی ہے یا کولہو؟کیا تم پاگل ہو یا مذاق کررہے ہو۔اس معاملے پر اچھا خاصہ تنازعہ پیدا ہو گیا۔
شور ہوا،ارد گرد بات پھیلی اور تیل پور کے سارےلوگ اس معاملے کو د یکھنے سننے کو جمع ہو گئے ۔ پنچ بیٹھے اور پنچایت لگ گئی پہلے گھوڑی کا بچہ پنچایت میں لانے کا حکم دی گیا۔پھر بیوپاری کواپنا معاملہ بیان کرنے کو کہا گیا۔ اس نے جو بیتی تھی، سو کہہ ڈالی ۔ اس نے ثبوت کے طور پر کہا کہ بچے کو چھوڑیں اور دیکھیں کہ بچہ کس کا دودھ پیتا ہے میری گھوڑی کا یا لکڑی کے بنے کولہو کا۔ اس سے پنچایت نے گواہ طلب کئے جو وہ پیش نہ کر سکا۔ اب تیلی کی باری آئی۔ تیلی نے کہا کہ بچہ اس کے کولہو نے دیا ہے۔ پنچایت نے اس سے گواہ پیش کرنے کو کہا جو اس نے پیش کر دئے۔ کئی گواہوں نے کہا کہ ہاں اس کا کولہو ہر سال بچہ دیتا ہے۔پنچایت نے فیصلہ دے دیا کہ گواہوں کی شہادت کی رو سے یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ بیوپاری کا دعویٰ غلط ہے اور وہ کوئی گواہ بھی اپنےحق میں پیش نہیں کر سکا۔ اس لئے مال ِ مقدمہ کولہو کا بچہ کولہو کے مالک تیل پور کے مکھیا کو دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر بیوپاری نے فیصلے پر نظرِ ثا نی کرنے کو کہا تو پنچایت کے سربراہ نے کہا کہ یہ کام جو ہم نے کیا ہے وہ عین جمہوری طریقے سے کیا ہے۔ جانتے بھی ہو جمہوریت کیا ہوتی ہے۔اس میں عوام کے چنے ہوئے لوگ ووٹنگ کے ذریعے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں۔بس فیصلہ تیلی کے حق میں ہو گیا۔
بیوپاری بیچارہ اپنی روتی ہوئی گھوڑی پر بیٹھ کر بڑی افسردگی سے شہر نوروز کی جانب روانہ ہوا۔سوچتا رہا کہ اس تیل پور کے پنچ کیسے ہیں۔ ان کو اتنی بھی عقل نہیں کہ کبھی کولہو بھی بچہ دے سکتا ہے۔شہر بے چراغ پہنچا۔ یہاں موتی کے تاجر اسے جانتے تھے۔اس نے ساراماجرا ان کے گوش گزار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کل صبح سویرے تیل پور کی جانب پیدل چلے جانا۔اور جو بیل گاڑیاں ادھر سے تیل کے مٹکے لے کر آرہی ہوں ان سے کہنا کہ مسافر ہوں شہر نوروز جارہا ہوں۔ وہاں تک ساتھ لے چلو۔ بوڑھا آدمی ہوں چلا نہیں جا رہا۔جب یہاں پہنچ جاؤ تو اس تمام تیل پر اپنا دعویٰ کر دینا۔بیوپار ی نے جو سنا تھا اس پر عمل کیا۔ تیل کی بھری چار بیل گاڑیاں تھیں ان کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔پھر وہی ہوا کہ شہر نوروز کے پنچ جمع ہوئے۔ انہوں دونوں فریقین کو جمع کیا۔پہلے مالِ مقدمہ پنچایت میں رکھا گیاپھر تیلیوں سے شہادت لانے کو کہا۔وہ جو شہادتیں لائے وہ پنچوں نے سنیں۔ اس کے بعد بیوپاری کی شہادتوں کی باری آئی تو سارے شہر نے شہادت د ی کہ ہاں یہ بیوپاری تو ہر سال اتنا ہی تیل لاتا ہے۔ ہم اس کو جانتے ہیں۔ پنچوں نے فیصلہ دیا کہ شہادتوں کی بنیاد پر اس تیل کا مالک بیوپاری ہی ہے۔ مال ِ مقدمہ جس میں تمام تیل اور بیل گاڑیاں شامل ہیں بیوپاری کو دی جاتی ہیں۔ تیلیوں نے لاکھ کہا کہ اس سے اتنا ہی پوچھ لو کہ کونسے تیل کا نام کیا ہے۔ کونسا پکا ہوا ہے اور کونسا کچا ہے۔ یہ موتیوں کا تاجر ہے اس کا تیل سے کیا واسطہ۔پنچوں نے جواب دیا کہ جب کولہو بچہ دے سکتا ہے تو موتیوں کا بیوپاری تیل بھی بیچ سکتا ہے۔تمام تیل اور بیل گاڑیاں بیوپاری کو دی گئیں ۔ تیلی نے کہا کہ یہ بہت ناانصافی ہے۔اس پر پنچایت کے سربراہ نے کہا کہ یہ کام جو ہم نے کیا ہے وہ عین جمہوری طریقے سے کیا ہے۔ جانتے بھی ہو جمہوریت کیا ہوتی ہے۔اس میں عوام کے چنے ہوئے لوگ ووٹنگ کے ذریعے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں۔بس فیصلہ بیوپاری کے حق میں ہو گیا۔ 
بیوپاری ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا ایک پنچ نے پوچھا کہ اب کیا ہوا۔اس نے جواب دیا کہ جب پنچوں کے فیصلے ایسے ہونگے تو ہماری آئندہ نسلوں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔میں اپنی آنے والی نسلوں کے لئے رو رہا ہوں اکثریت کا فیصلہ ہوگا تو ہر کولہو بچہ دے گا اور دیتا رہے گا۔
بچپن کی سنی ہوئی یہ کہانی اس وقت بہت یاد آتی ہے جب کبھی کوئی فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر اقلیتوں کے خلاف ہوتاہے۔بیوپاری صحیح رو رہا تھا۔
شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے

1 comment: