Thursday, July 16, 2015

کالا پلمبر

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے

مکان نمبرایک سو تیس خیابان رومی ڈیفنس منزل تھی اس پلمبر کی جس کو کسی نے یہاں زبردستی بھیجا تھا۔ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد اس نے جہاں تک ممکن تھا نوکری کی کوشش کی۔ جنگ کی وجہ سے پورا بلکہ اب آدھا ملک جو باقی رہ گیا تھا انتہائی بیروزگاری کا شکار تھا۔پوری کوشش کے باوجود اسے کہیں نوکری نہ ملی۔ہر جگہ ایک ہی جواب تھا کہ ہماری کمپنی کے وہ ملازمین جو مشرقی پاکستان سے آرہے ہیں ، پہلے ان کو جگہ دیں گے۔ یہ جواب جو کچھ سال جاری رہا پھرتبدیل ہو کر کسی کوٹہ سسٹم میں بدل گیا۔ میٹرک پاس کلرکوں میں اپلائی کیا تو پتہ چلا کہ کوٹے میں آپ کی جگہ نہیں بنتی ۔بھلا ہو اکرام الدین چنگیزی کا کہ وہ آٹھویں جماعت سے ہی اسکول چھوڑ کر اپنے باپ کے ساتھ کام پر جانے لگا اور بہت نامور پلمبر بن گیا۔ایک دن انعام اللہ خاں کے گھر کا ایک نلکا ٹپکنے لگا۔ان کی والدہ نے کہا کہ اس نگوڑے اکرام الدین چنگیزی کو بلا لاؤ نلکا ٹھیک کر دے گا آخر تمہارا پہلی سے آٹھویں تک ہم جماعت رہا ہے۔انعام اللہ خان اپنے کلاس فیلو اکرام الدین چنگیزی کو لے آئے اور اس نے نل کا ٹپکنا بند کر دیا۔ انعام اللہ خان کی والدہ نے مزوری پوچھی تو اس نے کہا کہ خالہ آپ سے کیا لینا ویسے اس کام کے بیس روپے سے کم نہیں لیتے۔خالہ اپنے بیٹے سے کہو میرے ساتھ کام پر چلے تیس روپے روز دونگا اور یہ کام بھی سیکھ جائے گا۔ اپنی بیروزگاری سے اتنے تنگ تھے کہ انہوں نے خود ہی اس کی بات مان لی۔ وہ تو ایک اسکول میں ایک سو بیس روپے ماہانہ پر ملازم بھی ہو گئے تھے لیکن بھٹو صاحب کے اسکول نیشنلائز کے اعلان پر وہ اسکول بند ہو گیا اور مالک نے سارے کمروں سے ڈیسک نکال کر اسکول کے صحن اور کمروں میں بھینسیں باندھ دی تھیں۔نہ اسکول ہوگا نہ ہمیشہ کے لئے بلڈنگ جائے گی۔اب جو تیس روپے روز سنا تو اعلان کر دیا کہ وہ کل سے اکرام الدین چنگیزی کے ساتھ کام پر جائے گا۔ باپ نے سنا تو کہا کہ خاندان کے نام پر بٹہ لگواؤ گے۔بیٹا ہم رام پور کے خاں ہیں آپ کیا کر ر ہے ہیں ۔اس کا جواب تھا کہ کوئی ناجائز کام نہیں کر رہا۔ کام شروع کیا ۔ انعام اللہ خاں یونیورسٹی میں اپنے نام کے ساتھ پروانہ بھی لگاتے تھے۔ اس نے اپنے نام سے پہلے تو پروانہ کو رخصت کیا، پھر کچھ ماہ میں خاں رخصت ہوا۔ اب ر ہ گیا انعام الدین اور آہستہ آہستہ یہ نام بنا انعام پلمبر۔وقت کے ساتھ یہ نام اس کی رنگت کے حساب سے تبدیل ہو کر بن گیا کالا پلمبر۔کالے پلمبر نے اپنے کام میں مہارت حاصل کی اور اب اس کے استاد اکرام الدین چنگیزی نے اسے الگ سے ٹھیکے دلوا دئے۔غرض وقت کی گردش کے ساتھ ایم اے پاس یونیورسٹی کا بانکا لڑکیوں کی آنکھوں کا ٹارگٹ انعام اللہ خاں پروانہ کالا پلمبر بن گیا۔ 

اس کالے پلمبر کو اس کے استاد نے کوئی چھوٹا سا کام کرنےکے لئے ڈیفنس بھیج دیا تھا۔راستہ پوچھتے پوچھتے نامعلوم کن بنگلوں میں جا نکلا۔ایک ایک بنگلہ کروڑوں کا ہوگا۔ایک بنگلے پر نام کی تختی تھی سمندر خان اے ایس آئی۔ہوں تو ایک اے ایس آئی کی اتنی آمدنی پلمبر سوچتا رہا اس نے کتنے جرائم پیشہ پکڑے ہونگے،ان سےکتنی رشوت لی ہوگی۔اسے یاد آیا کہ ایک بار اس کے ابا کا ایک دوست جو اے ایس آئی تھا اس نے ابا کو بتایا تھا کہ اس نے ایک شراب کا ٹرک پکڑا تھا اور ان سے دس لاکھ روپے رشوت لی تھی اس وقت الاعظم کا ایک فلیٹ پانچ ہزار روپے کا تھا۔یہ بھی ایسا ہی کرتا ہوگا۔اس نے کتنے بے گناہوں کو پکڑ پکڑ کر رشوت لی ہوگی۔اسے یاد آیا کہ جب مجیب الرحمن کے انتخابی امیدوار کا جلسہ پرانے گولیمار میں ہو رہا تھا اور اس پر لاٹھی چارج ہوا تو وہ بچنے کے لئے بنگالی دودھ والے محفوظ الرحمن کی دکان کے اندر گھس گیا تھا۔ اسے ماں نے دودھ لینےبھیجا تھا۔نقص امن میں گرفتار ہوا اور ابا اسے بڑی سفارشوں کے بعد دو سو روپے رشوت دے کر حوالات سے نکال کر لائے اس کا کیا قصور تھا۔ایسے ہی بے قصور لوگوں کی کمائی سے یا چوروں ڈکیتوں سے حصہ لے لے کر یہ بنگلہ بنا ہوگا۔ اس بنگلے کو دیکھ دیکھ کر کر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ دھوپ تیز تھی سامان کمر پر تھا ۔تھک گیا تو اسی بنگلے کے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔اسے یاد وں پر تو کنٹرول نہ تھا ، دماغ خود بخود گڑھے مردے نکالے جا رہا تھا۔ایک روز وہ لیاقت آباد میں اپنی سائیکل جسے تیس روپے دے کر سپیشل رنگ کرایا تھا فٹ پاتھ کےساتھ پیڈل کے سہارے کھڑی کر کے ایرانی ہوٹل ڈاکخانہ کے ساتھ مچھلی کی دکان پر مچھلی کھا رہا تھا۔ اچانک ایک لنگڑ ے نےجو اپنی جسامت اور کبڑے پن سے بنا بنایا دفعہ تین سو دو کا کیس لگتا تھا ایک ڈنڈا اس کی سائیکل پر دے مارا مارا ٹن ترڑررر اور کہا اوئے یہ کس کی سائیکل ہے۔ اسے تاؤ آگیا اور اس نے لنگڑے کی دھنائی کر دی۔ آخر تیس روپے کا رنگ کرایا تھا۔لنگڑایہ کہہ کر بھاگ گیا کہ ٹھیر جا میں ابھی تجھے پوچھتا ہوں۔ جب وہ واپس مچھلی والے کے پاس آیا تو اس نے آدھی کھائی ہوئی مچھلی میں مزید مچھلی اور روٹی پارسل کی اور کہا کہ بھائی جلدی سے چلے جاؤ یہ پولیس کا بیٹر ہے۔ پیسے بھی نہیں لئے کہ بس جلدی چلے جاؤ۔یہ بیٹر کیا ہوتا ہے اس نے اپنے والد سے پوچھا تو اسے پتہ لگا کہ بازار کے تمام ٹھیلوں ،پتھاروں ، دکانوں، گاڑیوں کارخانوں ریڑھی والوں سے تھانے کا بیٹر بیٹ وصول کرتا ہے ۔ یہ بنگلہ اسی طرح بنا ہوگا۔ ناجائز ہت تیرے کی میں اس ناجائز کمائی کے درخت کے سائے میں بیٹھا ہوں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

آگے چلا تو لکھا تھا ڈاکٹرفلاں فلاں جوکھیو سابق پولیس سرجن یہ بنگلہ تو پہلے والے سے کہیں زیادہ شاندار تھا۔یہ کتنے انصافوں کے خون سے تعمیر ہوا ہوگا۔ اس کی تعمیر میں کتنی دوشیزائیں جن کی بے حرمتی ہوئی تھی لیکن ان کے طبی معائنے میں جبر کا کوئی ذکر نہ ہوگا ان کے انصاف کا خون شامل ہوگا۔کتنے تھانوں میں تشدد کے کیسوں میں مرنے والوں کی رپورٹوں پر دل کی بیماری کی مہریں لگی ہونگی۔ کتنے پولیس تشدد کے شکار لوگوں کی رپورٹیں گرفتاری کے دوران خراشیں قرار دی گئی ہونگی۔کتنے قتل حادثات اور بیماری سے موت قرار دئے ہونگے۔کتنی امیدوں سے کسی نے اپنے بیٹے کے قتل کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بنوائی ہوگی کہ قاتل کے کپڑےمقتول کے خون سے بھرے ہوئے ہیں ۔ امید کر تا ہوگا کہ بس یہ ایک رپورٹ ہی قاتل کو سزا دلوادے گی لیکن رپورٹ میں تو وہ باپ کے ارمانوں کا خون نکلا ہوگا،بیٹے کا خون نہ نکلا ہوگا۔جب پولیس سرجن کو جو محکمہ ہیلتھ کا ملازم ہے محکمہ پولیس سے دو تین خلاصی اور گارڈ ملے ہونگے تو وہ کیسے ۔پولیس کی مرضی کے خلاف رپورٹ دے گا۔گریڈ اٹھارہ کے افسر کا بنگلہ ایسا تو نہیں ہو سکتا اس کی تنخواہ میں۔ کالا پلمبر یہ سوچتا سوچتا کچھ اور آگے نکل آیا۔

رستم علی پٹواری نام کی تختی نے اس کے خیالات کو پھر ایک بار راستے سے بھٹکا دیا۔اس کے یونیورسٹی کے سر نے بتایا تھا کہ پٹواری اپنی پٹوار کا حاکم ہوتا ہے۔وہ جب چاہے کسی کی زمین کو دوسرے کی زمین قرار دے دے۔ کسی کی زمین کم کردے اور کسی کی بڑھا دے۔اس کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تحصیلدار اور ڈپٹی کمشنر کا فرنٹ مین ہوتا ہے۔ شہاب نامہ میں رقم ہے کہ کسی بڑے آدمی نے جنرل ایوب خان سے کہا کہ اس کی زمینوں کا معاملہ حل نہیں ہو رہا۔ جنرل ایوب خان نے کہا کہ پٹواری کو کچھ دے دلا کر حل کرالو میں نےبھی ایسا ہی کیا ہے۔ اسے ایک پرانی کہانی یاد آگئی کہ ایک پٹواری جب ریٹائر ہو رہا تھا اور اس کا بیٹا اس کی جگہ لگ رہا تھا تو اس نےاس کو نصیحت کی کہ بچہ کان کھول کے سن لے،کامیابی کی کنجی میں تجھے بتا رہا ہوں۔ ہر ایک سے مانگ،ہروقت مانگ اور ہر چیز مانگ۔ہرایک سے مانگے گا تو کوئی تو دے گا۔ہر وقت مانگے گا تو کبھی تو دے گا۔ہر چیز مانگے گا تو کچھ تو دے گا۔ یہ ہے پٹواری کا فارمولا۔کتنے یتیموں کی زمینیں اس نے ان کے چچاتایا کو دی ہونگی،کتنی بیوائیں اس کو کوستی مر گئی ہونگی لیکن اس کی کوٹھی تک کوئی بددعا نہیں پہنچی ہوگی۔ دعائیں بد دعائیں تو آسمانوں میں چلی جاتی ہیں ۔ان بد دعاؤں کو ڈیفنس کا پتہ تو معلوم نہیں ہوتا۔ان تمام متاثرین نے جھولی پھیلا پھیلا کر کہا ہوگا تیرا ستاناس ہو تیرا ککھ نہ رہے لیکن ان کے خود کے ککھ نہ رہے اس کا ککھ یہاں کروڑوں کا تیار ہو رہا ہے۔او ر وہ اپنے ککھ کو بارش میں بھیگنے سے بچانے میں خود ساری عمر بھیگتے رہے ہونگے۔وہ اپنے خیالوں میں مست پیدل پیدل جا رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا کہ اس نے بھی اگر استاد کی طرح اگر آٹھویں سے اسکول چھوڑ دیا ہوتا تو ایسے خیالات کبھی نہ آتے۔ یہ سارے خیالات جو خوامخواہ اور خود بخود آرہے ہیں یہ سب اس کی یونیورسٹی کی تعلیم کا بے فیض نتیجہ ہے۔ 

ایک سے ایک خوبصورت بنگلہ دیکھ کر اس کے خیالات کچھ زمین پر کچھ آسمان پر پرواز کر رہے تھے۔ زمین پر اس کے خیالات میں آتا کہ اس کا ایسا بنگلہ کب ہوگا۔ بنگلوں کی بناوٹ ،خوبصورتی ،پیسوں کا ان پر تھونپا جانا، ان کی سکیورٹی ،پودوں ، شیشوں کی چمک دمک کے گرد گھومتے تھے اور آسمان پر اس کے خیالات ناجائزکمائی، انصاف کا قتل۔اللہ کی غیر منصفانہ تقسیم دولت ،بڑے لوگ، چھوٹے لوگ اور مولوی کا خطبہ کہ اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں اور جو جتنا زیادہ متقی ہے اس کا درجہ اللہ کے نزدیک اتنا ہی بلند ہے۔ وہ سوچتا کہ اللہ نے اپنے دوستوں کو کس حال میں رکھا ہوا ہے اور شیطان کے چیلے کس حال میں ہیں۔ ان ہی خیالوں میں مگن بلکہ پریشان حالی میں مگن اسے اس کا مطلوبہ پتے والا مکان مل گیا۔

اب وہ اس قلعہ نما مکان کے باہر بیل دے کر کھڑا تھا۔ بیل سے آواز آئی کون ہے۔ جی میں پلمبر ہوں۔پندرہ منٹ دھوپ میں کھڑے ہونے کے بعد دروازہ کھلا اور اس کو ایک کمرےمیں بٹھا دیا گیا ۔ایک گھنٹہ انتظار کے بعد ایک بنی سنوری لیڈی اس کمرے میں آئی ۔پلمبر نے اندازہ لگا یا کہ یہ ایک گھنٹہ اس کے بننے سنورنے میں لگا ہوگا بھلا پلمبر بھی کوئی انسان ہے کہ اس کے سامنے بن سنور کر آیا جائے ۔ پوچھا کہ کچھ چائے وائے کسی نے پلائی ۔ اس کی خاموشی پر ایک ماما کو بلا کر ڈانٹااور اس انداز سے چائے کا آرڈردیا جیسے کہ رہی ہو کہ اس کتے کو روٹی اب تک کیوں نہیں ڈالی ۔ بہر حال چائے پی کر لیڈی نے کام بتایا ۔ پلمبر نے کام کرنا شروع کیا شام تک کام ختم ہوا۔اس دوراں ایک ادھیڑ عمرآدمی آیا اور اسے کام کرتا دیکھ بولا ہوں کیا کرتے ہو۔ جی پلمبر ہوں۔وہ تو بات کر کے چلا گیا۔لیکن یہ ہوں پلمبر کو کہیں اور لے گئی۔ یہ ہوں کا انداز اسے پندرہ سال پیچھے لے گیا۔

وہ پانچویں چھٹی جماعت میں تھا جب اس کا پسندیدہ کام اتوار کو نیٹی جیٹی پل کے برابر ریلوے ٹریک پر مچھلیاں پکڑنا تھا۔وہاں اکثر پولیس والے آتے اور سب سے دو دو آنے لیتے۔ایک روز وہ مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ ایک پولیس والاآگیا اور بولا ہوں کیا کرتے ہو۔ دو آنے نکالو۔ اس کے پاس روپے کا نوٹ تھا۔ ریلوے ٹریک کے درمیان سے دائیں جانب وہ دونوں ایک روپے کا کھلا کرانے چلے کھلا نہیں ملا۔ پھر پورا ٹریک پار کر کے بائیں جانب چلے ۔ اس ٹریک پر چلنا ایک ایک سلیپر پر پاؤں رکھنا جبکہ نیچے سمندر نظر آ رہا ہو بہت مشکل کام تھا۔ اتوار کی وجہ سے دکانیں بند تھیں۔ وہ اسے ٹاور تک لے گیا۔ دو آنے لے کر چودہ آنے واپس کئے۔یہ ہوں وہی تھی۔ اس کی عمر کے اثرات کے باوجود پلمبر نے اسے پہچان لیا۔ کام ختم ہوا۔لیڈی نے کام چیک کیا۔ اب اس آدمی نے پوچھا کیا مزدوری ہوئی۔ پلمبر کا دھیان کہیں اور ہی اٹکا ہوا تھا۔ اسے اس آدمی میں ایک رشوت خور بھیڑیا نظر آرہا تھا جس نے اس کے بچپن کے جیب خرچ پر ڈاکہ ڈالا تھا۔۔ کیسے وہ دو آنے روز کا جیب خرچ بچا بچا کر رکھتا اور اتوار کو شکار کھیلتا۔ اس میں سے بھی دو آنے رشوت۔یہ دو آنے اس کا بچپن چرانے کی بات تھی۔ وہ چھوٹا تھا کمزور تھا بچہ تھا لیکن اس وقت بھی اس کا دل چاہتاتھا کہ اس رشوت خور کو دھکّا دے کر سمندر میں گرا دے۔ایک ہوں کی وہی آواز آئی ہوں تو کتنی مزدوری ہوئی تمہاری۔نمعلوم کیا ہوا اسے اچانک اس کے منہ سے نکل گیا آپ کیا دیں گے آپ تو میرے مقروض ہیں آپ پولیس میں تھے نا؟ ۔اب ایک کی بجائے دونوں طرف سے ہیں کی آواز آئی، اس کے ساتھ ہی نسوانی ہیں نے پوچھا وہ کیسے اور اس کو چپ لگ گئی۔ اب لاکھ پوچھا کہ بھئی کونسا قرض لیکن وہ کیا بولتا۔ وہ تو بے اختیاری میں اس کے منہ سے جملہ نکل گیاتھا۔لیکن باپ بیٹی نے پیچھا ہی پکڑ لیا کہ کونسا قرض۔ باپ کا کوئی ملنے والا آگیا وہ تو باہر چلا گیا۔ ۔ بیٹی شائد نفسیات دان تھی۔ اس نے پلمبر کی زبان کھلوادی۔ پلمبر اب اس کے سامنےپندرہ سال پہلے کا بچہ بن کر ایسے واقعہ بیان کر رہا تھا جیسےوہ اس کی ماں ہو یا بڑی بہن ہو ۔اس نے دیکھا کہ یہ سب سن کر وہ رو رہی تھی۔ اور اس طرح رو رہی تھی جیسے یہ سب کچھ اس کے بچے کے ساتھ پیش آیا ہو۔وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھا اور بھاگتا ہوا گھر سے محلے سے ڈیفنس سے باہر نکل آیا۔اسے بے انتہا افسوس تھا کہ اس نے یہ کیا کیا۔ اور بے انتہا خوشی تھی کہ یہاں انسان بھی رہتے ہیں۔رات کو پھر سے خیالات نے آلیا ۔ اس نے دل میں توبہ کی کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔اسے لگتا تھا کہ یہ آبادیاں انسانوں اور بھیڑیوں کا مشترکہ مسکن ہیں۔ اس نے کیوں ایم اے کیا اور ایسے خیالات اسی لئے اس کے دماغ کو خراب کرتے ہیں کہ اس نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔اسی ادھیڑ بن میں سو گیا۔

اگلے دن کہیں اور کام پر گیا واپس آیا تو اس کی ماں نے کہا کہ بیٹا ایک میم صاحبہ آئی تھیں یہ پیکٹ دے گئی تھیں کہ کالے پلمبر کو دے دینا اس کی مزدوری ہے۔ اس نے پیکٹ اٹھایا تو وہ اچھا خاصہ بھاری تھا۔کھولا تو ایک تحریر تھی کہ اس کو قبول کر لیں اگر واپس کیا تو سمجھ لینا کہ تم میرے چھوٹے بھائی نہیں ہو۔یہ رقم میرے ذاتی بزنس کی کمائی سے ہے اور حلال کی ہے۔ پلمبر نے گنے بغیر و ہ رقم اپنی ماں کو دے دی اور وہ پر چہ بھی ساتھ دے دیا۔ اسے اپنے ایک پروفیسر کی بات یاد آئی وہ سیرو تفریح پر لیکچر دے رہے تھے کہ جب انسان کے دماغ میں خوامخواہ کے فاسد خیالات جنم لیں تو اسے ذہنی آرام کی ضرورت ہوتی جو اسےسیرو تفریح سیر،پکنک وغیرہ سے حاصل ہوسکتاہے ۔ یہ بات اس کے ایم اے کرنے سے ہی پتہ چلی تھی نا۔ اس کے مرض کا علاج تو اس کے پروفیسر نے بتا دیا تھا ۔ یہاں اسے اپنے پڑھے لکھے ہونے کا فائدہ نظر آیا۔ان پروفیسر کی بات پر عمل کر نے اور اپنے فاسد خیالات کو دھونے کے لئے دوستوں کے ساتھ حب ڈیم چلا گیا۔ 





No comments:

Post a Comment