Thursday, August 6, 2015

اچھی نسل کی مائی دابی

ایک پیرمرد درویش کے پاس  ایک نوجوان  بنام امام دین حصول  علم کے لئے حاضر ہوا۔پیر مرد درویش اپنے وقت کا باکمال درویش تھا۔ لمبی زلفیں، خوبصورت داڑھی ،نورانی چہرہ ،قراءت میں ایسا کہ چلتے راہی راستہ بھول جائیں ،ستارے رک رک کر روانہ ہوں ، پرندے اپنی اڑان بھول جائیں اورچاند ڈوبنا بھول جائے۔یہ پیر مرد درویش ایک مزار اسم نامعلوم عرف پیر غائب  کی خدمت پر معمور ہوتا تھا۔قبر کی جھاڑو خود تین وقت شروع کرتا پھر خدام ہاتھ سے جھاڑو لے لیتے۔ جمعرات کی رات  نذرانے کا بکس پیر غائب کی نسبت سے غائب کر دیتا۔جواز اس کا یہ  تھا کہ پیر غائب نمائش و نمود کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جمعرات کے دن  اس رقم سے مخلوق خدا کو لنگر کھلاتا۔ اس دیہاتی علاقے میں  دیگ کے چاول بڑی غنیمت ہوتے تھے۔
لوگ دور دور سے پیدل یا گدھوں پر سوار ہو کر آتے اور اس لنگر سے فیضیاب ہوتے۔علاقے میں جمعرات کا دن عید کے دن جیسا ہوتا۔مائیں بچوں کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنا کر مزار پر لاتیں اور لنگر کھلاتیں۔پیر صاحب اپنا  سفید ٹخنوں تک لمبا جبہ زیب تن کر کے ،ٹوپی لگا کر، آنکھوں میں سرمہ ڈال کر،خوشبو لگا کر ہاتھ میں ہزار دانی تسبیح اور گلے میں سات مالائیں ڈال کر ،کندھوں پر سفید رومال بچھا کر بعد نماز ظہر حاجت روائی کے لئے  مسند نشیں ہوتے۔ حاجت مند جن میں زیادہ تعداد دیہاتی خواتین کی ہوتی تھی ،جوق در جوق جمعرات کو مزار ِ پیر غائب پر آتے اور اپنی مرادیں پاتے۔حاجت مندوں کے  لئے  طریقت یہ  تھی کہ پہلے سارے حضرات کو پنڈال میں بٹھایا جاتا اور ان کو جلدی جلدی فارغ کیا جاتا تھا۔ ان کا  مسئلہ اور مدعا سن کر دعا دی جاتی اور حل کے لئے پیر غائب سے مدد لینے کا وعدہ کیا جاتا۔ حسب توفیق یا حسب ضرورت نذرانہ بکس میں ڈالنے کو کہا جاتا۔یہ بات زد عام تھی کہ جتنا زیادہ اور خوشی خوشی نذرانہ ڈالا جائے گا ، کام  اتنی ہی جلدی اور پکا   ہوگا۔حضرات سے لنگر خانے میں بکرا یا چاول  جمع کرانے کو بھی کہا جاتا۔بعض اوقات جنّات کو دینے کے لئے بھی صدقے کے گائے بیل طلب کر لئے جاتے تھے۔ اس کے بعد خواتیں حاجت مندوں کی باری آتی۔بوڑھی ہو یا بیمار ہو یا چلنے کے لائق بھی نہ ہو لیکن کسی بھی خاتون کو کوئی مرد ساتھ لانے کی اجازت نہ تھی۔دوسری خواتین کے پردے کا معاملہ تھا نا۔ویسے یہ ساری دیہاتی خواتین اپنے کھیتوں  اور علاقوں میں  دھوتی پہن کر بے پردہ گھومتی تھیں۔ دیہاتوں میں پردہ صرف گھر والوں جیسے جیٹھ یا سسر سے ہی کیا جاتا ہے  باقی  سب سے معاملہ فری پورٹ کا ہوتا ہے۔عشاء تک یہ سلسلہ چلتا رہتا۔
تو وہ نوجوان جو پانچویں جماعت میں استاد کے ہاتھوں  تشدد کا شکار ہو کر سکول سے بھاگ کیا تھااور پھر چند سال کسی مدرسے میں رہ کر خیرات کا مال کھا کھا کر  جوان ہو گیا تھا وہ  اس پیرمرد درویش کے پاس  حاضر ہوا۔
ُ  ُ نوجوان  کیا بات ہے ایک ہفتے سے درگاہ میں پڑے ہو”
ُ  ُحضرت صاحب آپ کی نظر کرم کی ضرورت ہے  کئی سال مدرسے میں پڑھا،بہت عبادت کی، چلے کاٹے ،مشہور مشہور مزارات پر گیا لیکن دل کو کوئی سکون نہ ملا۔”
ُ  ُ ہووووووں تو یہاں کس خیال سے آئے ہو اور نام کیا ہے تمہارا؟”
ُ  ُمیرا نام امام دین ہے۔حضرت صاحب آپ اپنی شاگردی میں لے لیجئے،راہ سلوک کی کچھ منزلیں   طے کرا دیجئے،راہ نجات کا کوئی توشہ دے دیجئے اور کچھ نہیں چاہیے ”
ُ  ُہووووووں  ٹھیک ہے دیکھتے ہیں۔فی الحال تو زائرین کی چپلیں جوتے سنبھالو۔ ان کی نگرانی کرو،چپل سیدھی کر کے پہننے کے لئے دو اور رات کو جو رقم اکٹھی ہو  وہ میرے پاس جمع کرادو۔ اکیلے میں خاموشی سے کاغذ میں لپیٹ کر چھپا کر دینا ۔ پیر غائب شاہ نمودو نمائش کو پسند نہیں کرتے”۔
نوجوان بڑے انہماک اور خشوع  و خزوع کےساتھ یہ کام انجام دیتا رہا۔پھر اس کام کے بعد مزار کی جاروب کشی کی ذمہ داری ڈالی گئی۔  اس ذمہ داری کو بھی بڑی تندہی سے نبھایا۔مزار پر ہروقت جاروب کشی ہی کرتا رہا۔مزار ہر وقت چمکتا دمکتا نظر آتا تھا۔ خلوص دیکھ کر لنگر خانے میں لگا دیا گیا۔ لنگر خانے کے دن پھر گئے۔نئے برتن  کھانے کا معیار اور کھلانے کا انتظام سب لوگوں کو بہت پسند آیا۔پیر صاحب نے چند سال بعد لگ بھگ اپنا  سیکریٹری ہی بنا لیا۔ سر نیچا کئے ہوئے امام دین ہر وقت ہر خدمت کے لئے حاضر ہوتا۔ان کی غیر موجودگی میں دو چار دن آستانہ بھی چلا لیتا تھا۔ اس دوران جو نقد نذرانہ آتا ،اس میں سے کچھ جیب میں بھی رکھ لیتا۔بہت سے دیہاتی اور دیہاتنیں اب اس کے مرید بن گئے تھے۔خواتین کی محفلِ حاجت روائی  میں اب اس کو داخلے کی اجازت تھی۔سال پر سال گزرے۔نوجوان شاگرد کی پیر غائب پر  ایسی مصروفیات ہو گئیں کہ سلوک و اسلوب کی منزلیں کہیں پیچھے رہ گئیں۔کیا سیکھنے آیا تھا اور کیا سیکھ رہا تھا۔
پیر صاحب   خواتین کی محفلِ حاجت روائی میں جو کچھ  کرتے وہ سب اس نے بھی سیکھ لیا جیسے کسی خاتون نے منہ چھپایاا ہوا ہے تو اسے کہنا کہ اللہ کی نیک بندی پیر صاحب سے کیا پردہ،اگر میں تمہیں یہاں دیکھوں گا نہیں تو یومِ حشر تمہیں پہچانوں گا کیسے،پہچانوں گا نہیں تو بخشش کیسے کراؤں گا ؟۔ ۔پیر صاحب کی خاص دیوانیوں سے اس کے اچھے تعلقات ہو گئے تھے۔ان دیوانیوں کا کام وہی تھا جو ہر آستانے پر پیر صاحب کے لئے یہ انجام دیتی ہیں۔ تخلیہ میں لڑکیوں کے جن اتارنے کا عمل بھی اس نے جان لیا تھا۔ اگر جن اتارنے کے دوران  کوئی حاملہ ہو جاتی تو اس کے والدین کو مبارکباد دی جاتی   کہ  اسکے پیٹ میں جن کا بچہ  ہے۔جن نے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ اپنا بچہ لے کر چلا جائے گا اور  اس پر پھر کبھی نہیں آئے گا۔ یہ دیوانیاں ایسی لڑکیوں کو اپنی نگرانی میں رکھتیں اور جن کے بچے کے پیدا ہونے میں مددگار ہوتیں۔بچہ ہونے کے بعد جن اپنا بچہ لے جاتا ۔ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ویسے بھی ایسی کنیا کماریاں ان بچوں  کا کیا کریں گی۔معاشرے میں ابھی جن کے بچوں کو قبول کرنے کا رواج نہیں۔ اب یہ تسلی ہو جاتی تھی کہ دوبارہ جن کبھی نہیں آئے گا۔
 ایک روزجب پیر صاحب ہمیشہ کی  طرح ایک رات کے لئے مدینے گئے ہوئے تھے یہ با سعادت شاگرد رات کو کسی  لڑکی کا جن اتار رہا تھا ۔ اسے اپنے کام میں انہماک کی وجہ سے پتہ نہ چلا اور پیر صاحب نے اسے دیکھ لیا  کچھ کہے بغیر واپس چند گھنٹوں کے لئے مدینے چلے گئے۔
ُُ  ُبیٹا امام دین ماشااللہ اب تم بڑے ہو گئے ہو۔سارا کام سنبھال لیتے ہو ۔مجھے بڑی خوشی ہے کہ تم جن بھی  اتار لیتے ہو۔ جمعرات کو شام کے لئے ایک شادی کا مکمل بندوبست  کر دو۔تمام چودھریوں اور نمبردار وغیرہ کو خبر کردو کہ پیر صاحب نے شادی میں بلایا ہے۔دو تین طرح کے اپنی پسند کے کھانے لنگر میں پکوا دینا۔”
ُ  ُاستاد محترم کس کی شادی ہےاور دعوت میں کس کا نام لوں؟”
ُ  ُبس تم جا کر دعوت دو اور بندوبست کرواور دیکھو اللہ دتہ درزی کو  بھی لے کر میرے پاس آجانا”
اللہ دتہ درزی کو  پیر صاحب کے پاس  لے آیا۔
ُُ  ُ دیکھو اللہ دتہ  امام دین کا ایک بہترین جوڑا شادی کا مع اچکن دو دن میں تیار کرنا ہے۔ناپ لو اور کام شروع کردو۔”
استاد سے مزید پوچھنے کا اس میں   حوصلہ نہ تھا۔ اس کو گم سم دیکھ کر پیر صاحب نے کہا  کہ بیٹا پریشان کیوں ہو ۔تمہاری شادی میں اس خوبصورت لڑکی سے کر رہا ہوں جس کا تم نے اس دن جن اتارا تھا۔جمعرات کو شاگرد کی شادی ہو گئی۔ بڑَ ےٹھاٹھ باٹھ سے ہوئی۔ایک ہفتے تک شاگرد تمام ذمہ داریوں سے فارغ رہے۔اور ایک دن استاد نے بلایا۔
ُ  ُ بیٹا اللہ دتہ میں نے تمہاری تربیت مکمل کر دی۔ تم ایک آستانہ چلانے کی پوری اہلیت رکھتے ہو۔شادی بھی کر دی۔اب تم جاؤ اپنا آستانہ خود پیدا کرو اور کماؤ کھاؤ۔ یاد رکھو شیر اپنا جنگل خود تلاش کرتا ہے۔چند باتیں یاد رکھنا۔ جب کہیں جاؤ  تو کہو کہ میں مدینے جا رہا ہوں ۔جب مشکل میں پڑ جاؤ اور سائل کا کام  نہ ہو سکے تو مدینے جاؤ ۔ مدینے پر چڑھاوے کے پیسے الگ سے لینا۔  واپس آؤ اور کہو کہ اسی میں بہتری ہے۔”
اگلی صبح نماز فجر کے بعد استاد نے ایک مریل سی گدھی پر  زادِ راہ رکھا،اپنی بہو کو اس پر بٹھایا اور شاگرد کے ہاتھ میں ایک ہرا جھنڈا دے کر اسے شمال کی جانب سفر کرنے کی ہدایت کر دی ۔کہا کہ شمال کی جانب جو علاقہ ہے اس میں برکت ہے۔ویسے شمال کا علاقہ ویران سا تھا۔
شاگردجانب شمال ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں گدھی کی باگ تھامے روانہ ہو گیا۔رات آئی ایک جگہ صحرا میں  پڑاؤ ڈالا ۔اہلیہ سے کہا کہ کھانا نکالو کچھ کھا پی لیتے ہیں سفر نامعلوم ابھی کتنا ہے۔جھنڈے کو ریت میں گاڑھا اور کھا پی کر سو گئے۔بوڑھی گدھی سارا دن چل کر تھکی ہوئی تھی ۔اس کے دانے پانی کا خیال ہی نہ آیا۔ وہ رات کے کسی پہر ان کا ساتھ چھوڑ گئی۔ آدھی رات کو جب اس کا خیال آیا تو  اسے مرا ہواپایا ۔ بہت دکھ ہوا۔ استاد کی نشانی تھی۔اب کیا کیا جائے۔ چلو اس کو دفناتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی نے اس کو منہ اندھیرے مٹی میں دبا  کر قبر پر وہی  سبز جھنڈ لگا دیا اور رونے بیٹھ گئے۔ایک چرواہا وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس نے یہ سماں دیکھا کہ صبح صبح  جہاں تیتر بولتے ہیں وہاں سے رونے کی آواز آرہی ہے۔قریب آیا اور رونے کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے بتا یا کہ ہم تین تھے ایک  مائی کا انتقال ہو گیا۔ مائی کو یہاں دبادیا ہے۔ وہ گیا اور سارے گاؤں کو بتا دیا ۔
دیہاتوں میں میّت ہونا بہت اہم بات ہوتی ہے۔ سارا دیہات آ گیا عورتیں مرد جمع ہو گئے۔ ان کو بہت تسلی دی کہ اللہ کو یہی منظور تھا۔ اب صبر کرو۔ اور یہ دونوں کہے جا رہےہیں کہ مائی  بہت شریف تھی بہت نیک تھی۔جنتی تھی ۔ ساری زندگی خاموشی میں گزار دی بڑی صابرو شاکر تھی۔ایسی مائی تھی ویسی مائی تھی وغیرہ وغیرہ۔قبر پر جھنڈا تو استاد کا دیا ہوا لگا ہی دیا تھا۔دیہات کی لڑکیوں نے  لا کر پھول ڈال دئے۔ رات کویہ دونوں چادر بچھا کر جہاں بیٹھے تھے وہیں  لیٹ گئے۔ کچھ عورتیں  بھی ساتھ دینے کو رہ گئیں۔دیہات کی لڑکیوں کو ایک شغل مل گیا روزانہ پھول چن کر  ایک دوسرے کے ساتھ گھر والوں کو کہتیں کہ وہاں جا رہے ہیں جہاں مائی دابی ہوئی ہے۔آ کر مائی دابی کی قبر پر  پھول ڈال دیتیں۔ یہ گاؤں سے شہر جانے کا راستہ تھا۔کھانا پینا  دیہاتیوں کے ذمہ ہو گیا۔ دو آدمیوں روٹی کون سی  بڑی بات ہے۔دیہاتی  عورتیں آتیں تو دونوں میاں بیوی ان کو  اس مائی کی کرامات  کی کہانیاں سناتے۔ کسی نے دو مٹکے یہاں لا کر رکھ دئے۔ اب یہ دونوں کھلے آسماں تلے دن رات مائی دابی کی خدمت کرتے رہتے۔ ریشماں کا بیٹا بہت بیمار ہوا اسے یرقان ہو گیا تھا۔ اس نے آکر منت مانگ لی اور وہ ٹھیک ہو گیا ۔اس نے اس قبر پر ایک بڑا سا سائبان بنوا دیا۔لوگوں کا آنا جانا تو ویسے ہی لگا رہتا تھا کہ یہ شہر کا راستہ تھا۔ایک دن     فضلو نے امام دین سے کہا کہ میں یہاں  ایک مٹی کا اونچا چولہا بنا لوں پکوڑے بیچنے کے لئے۔امام  دین نے اجازت دے دی اور یہاں پکوڑے بکنے لگے۔
ایک دن رات کو بارش ہو گئی اور کافی پریشانی ہوئی۔قبر کو پانی میں بہنے سے مشکل سے بچایا۔ دونوں میاں بیوی بھی بھیگتے رہے۔صبح یہ پریشانی گاؤں والوں کو بتائی۔اب یہ مائی دابی تو  اس  گاؤ ں والوں کے لئے  ایک لازمی  جز بن چکی تھی۔سب نے مل کر اس جگہ کو اونچا کیا۔پکی قبر بنائی ۔ایک بڑاحاطہ کوئی ایک ایکڑ  کا کچی اینٹوں سے بنایا۔ امام دین جو اب شاہ صاحب بن چکا تھا اس کے لئے ایک اچھی جھونپڑی بنائی۔اب شاہ صاحب کا کاروبار اچھا چلنے لگا۔ ایک چندے کا بکس بھی رکھ دیا گیا ۔ -پکوڑے والے  کے برابر ایک ہار پھول والا آگیا۔ ایک تعویز انگوٹھیاں اور ہار بندے چوڑیاں بیچنے والا آگیا۔ ایک جلیبی والا بھی اپنا ٹھیلہ لے کر آگیا۔روٹی اور چائے کا ہوٹل بھی بن گیا ۔رفتہ رفتہ پکا مزار اور پکا گھر بھی بن گیا۔ اب جمعرات کو لنگر بھی ہونے لگا۔شاہ صاحب کی داڑھی کچھ اور لمبی ہو گئی۔ ہزار دانی تسبیح بھی آگئی۔ گلے میں سات  مالائیں بھی پڑ گئیں۔کوٹھی نما مکان بن گیا۔لڑکیوں کے جن اتارنےپر خاتون کا موجود ہونا بڑا کامیاب ثابت ہوا۔ بہت سی لڑکیاں  ہر جمعرات کو آنے لگیں۔  استاد کے پاس تو ایک بھی مرد پر جن نہ آتا تھا ۔یہاں جب شاہ صاحب کی بیگم  جن اتارنے لگیں تو لڑکوں پر بھی جن آنے لگے۔ایک نائی بھی کہیں سے آگیا اور اس نے دکان لگا لی۔کچھ جھونپڑیاں بھی بن گئیں۔ جب سے پیر صاحب نے آستانے پر بورنگ کرا کر پانی صدقہءجاریہ کر دیا تب سے کچھ آبادی بڑھنے لگی۔ ایک پاوندوں کا خاندان کہیں جا رہا تھا اسے یہاں رونق نظر آئی تو  رک گیا۔ان کے چار پانچ گھر تھے۔انہوں نے بھی یہاں مستقل پڑاؤ ڈال دیا۔اور ان میں سے کچھ نے گانا بجانا اور کچھ نے ٹوکریاں بنا کر مزار پر بیچنا  شروع کر دیں۔ایک خاندان ان خانہ بدوشوں میں لوہار تھا اس پر تو دیہاتیوں کا بہت رش ہوتا تھا۔ہر جمعرات قوالی کی محفل بھی ہونے لگی۔غرض اب  مائی دابی کا مزارمرجع خلائق کے طور پر مشہور ہو گیا۔
پیرمرد درویش باکمال کو کسی نے خبر دی کہ  ایک دن کے فاصلے پر ایک برگ  خاتون کا مزار بنام مائی دابی خلق خدا کو فیض پہنچا رہا ہے۔استاد کا ک اروباری حسد اس کو وہاں کھینچ کر لے گیا۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
شاگرد نے جو دیکھا کہ استاد آگئے ہیں۔ فرشی سلام کیا خوب خدمت کی اور عرض کی کہ استاد محترم   میں تو خود حاضر ہونے والا تھا۔یہ ساری برکتیں آپ کی دی ہوئی گدھی کی ہیں۔آپ نے کیسی برکتی گدھی دی کہ اس کو دفنانے پر میری اولاد در اولادبلکہ پشت در پشت کی روٹیوں کا بندوبست ہو گیا ہے۔ استاد نے جواب دیاکہ بیٹا میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تحفہ دیا تھا۔ یہ گدھی  بہت اچھی نسل کی ہے اس کی ماں کو میں   نے وہاں دفنایا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔جئے شاہ۔

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے ایک تحریر

No comments:

Post a Comment