Monday, August 10, 2015

گیدڑ خان

شمیم الدین غوری کے لیپ ٹاپ سے
                رستم خان نے بیوی سے کہا   ،  ُ  ُ اوئے شیر خان کو اٹھاؤ بھیجو اس کو چھلیاں دے کر اسٹاپ پر۔سب نہیں جائیں گے کام پر تو یہ دس آدمی کہاں سے جہنم بھریں گے۔صبح کی بسیں نکل جائیں گی تو چھلیاں کون خریدے گا”
ُ  ُ اسے آج رہنے دو کل کوئلے جلاتے ہوئے اس کا ہاتھ جل گیا تھا۔رات بھرتکلیف سے روتا رہا ہے۔آج اسے میں مولوی صاحب کے پاس لے جاؤں گی وہ اسے کچھ دم کر یں گے کچھ دوا دیں گے ۔ ہاتھ کچھ ٹھیک ہوگا تو بھیج دونگی۔ آج کرم خان اکیلا گیا ہے۔جاتے میں اس کی روٹی لے جانا۔”
                شیر خان آٹھ بچوں میں سب سے چھوٹا تھا اور کوئی پانچ چھ سال کا تھا۔بس اسٹاپ پر اپنے بھائی کے ساتھ مکئی کے بھٹے بیچتا تھا۔
                ُ  ُ مولوی صاحب شیر خان کا ہاتھ جل گیا ہے۔اس کو کوئی دوا دے دیں رات بھر روتا رہا ہے۔کچھ دم کریں  تکلیف کم ہو۔”
مولوی صاحب جو کسی دیہاتی مدرسے کے مہتمم تھے،حکمت جانتے تھے۔انہوں نے شیر خان کو کوئی مرہم دی اور دم درود کیا پھر کہا،ُ  ُ اللہ کی بندی اتنا خوبصورت بچہ ہے  گلاب کے پھول جیسا۔اس کو اللہ کی  راہ پر ڈال۔مدرسے میں داخل کرا دے۔کچھ دین پڑھ جائے گا۔کسی بچے کو نہیں پڑھایا،ایک کو پڑھا دے یہ جب تک زندہ رہے گا اورکلام مجید پڑھے گا ماں باپ کو  ثواب ہوگا۔کب تک بس اسٹاپ پر بھٹے بیچتا رہے گا۔ میں تین دن کی چھٹی پر آیا تھا کل شام کو واپس مدرسے جاؤں گا۔کل اسے کپڑے دے کر میرے ساتھ بھیج دے”
گل شیریں کو یہ بات سمجھ آگئی۔اس نے  رات کو رستم خان سے بات کی۔ ُُ ُ خان جی مولوی صاحب کہ رہے تھے کہ اس ایک کو تو مدرسے میں داخل کرادو۔یہ ہماری بخشش کی دعا کیا کرے گا۔ اس کے دین پڑھنے پڑھانے سے ہمیں بھی ثواب پہنچتا رہے گا۔یہ وہاں جائے گا تو کچھ آٹے کا خرچہ بھی کم ہوگا۔اس آمدنی میں آٹھ بچوں کا گزارہ نہیں ہوتا،”
رستم خان نے بھی سوچا کہ بات تو ٹھیک ہے۔ایک آدمی کا خرچ تو کم  ہوگا  اور پھر پڑھ بھی جائے گا
 اور شیر خان کو اگلے دن مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے بھیج دیا گیا۔
                اس دیہاتی مدرسے میں صبح سویرے  سے شام تک پڑھائی اور پٹائی ہوتی تھی۔شیر خان ایک آزاد علاقے کا آزاد لڑکا تھا۔ چھ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ماں سے الگ ہو کر بہت روتا تھا۔روتے دیکھ کر اور پٹائی ہوتی۔روتا بھی چھپ  چھپ کر تھا۔مہینوں بعد رمضان میں گھر آیا تو ماں سے مل کر بہت  رویا اور کہا کہ وہ صبح صویرے اٹھ کر بس سٹاپ پر چلا جایا کرے  گا  ،جو کہو گی کرونگا ، سارا دن بھٹےّ بیچوں گا لیکن اس کو مدرسے نہ بھیجیں۔عید گھر پر گزاری اور ماں نے بہلا پھسلا کر کچھ پیسے بھی دے کر  پھر مولوی صاحب کے ساتھ مدرسے بھیج دیا۔ دو سال اسی طرح گزر گئے۔ایک سال میں دو مرتبہ عید پر گھر آجاتا۔روتا، ماں کی منتیں کرتا لیکن ماں سمجھا بجھا کر اسے بھیج دیتی ۔ سیدھی سادی پٹھان دیہاتن تھی،بس ایک بات جانتی تھی کہ اس کا بچہ کسی طرح پڑھ لے ۔ کبھی بچے سے یہ نہ پوچھا کہ آخر اس کو تکلیف کیا ہے ؟ کیوں وہ مدرسے جانے سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔
                دو سال بعد جب ایک دن مولوی صاحب  خلاف معمول اپنے گھر آئے ہوئے تھے۔ گاؤں میں ایک جرگہ بیٹھا۔جس میں مدرسے سے آئے ہوئے والدین اور  علاقے کے زعماء شامل تھے۔ پولیٹیکل ایجنٹ بھی آیا ہوا تھا۔جرگہ صبح سے شام تک بیٹھا رہا ۔مدرسے کے طلباء کے والدین نے سب کے سامنے اس بات کے ثبوت دئے کہ مولوی صاحب لڑکوں کے ساتھ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوّث ہیں۔  جرگے کے فیصلے کے تحت مولوی صاحب کے بال بچوں کو گھر سے باہر نکالا اور مولوی صاحب کو ان کے گھر میں برسٹ مار کر گھر سمیت جلا دیا۔گھرکو مسمار کر دیا۔مدرسہ بند ہو گیا اور طلباء کو ارد گرد کے گاؤں کے مدارس والوں نے مالِ غنیمت کے طور پر بانٹ لیا،
                اب جس مدرسے میں شیر خان کا داخلہ ہوا۔ وہاں اس کی ذ مہ داری تھی  کہ صبح تین گھروں سے کھانالائے۔ روزانہ فجر کے بعدوہ تین چار کلو میٹر جاتا اور تینوں گھروں سے کھانا لاتا۔ رات کا بچا کھچا کھانا دینے میں بھی چوہدری اور زمینداروں کے اتنے نخرے اٹھانے پڑتے کہ وہ تنگ آجاتا۔ کبھی نوکر کہتا کہ  آ گئے ہو صبح صبح۔جاؤ توتھوڑی دیر میں آنا۔کبھی فقیر ہونے کا طعنہ ملتا  کبھی کوئی اسے ایک ایک گھنٹہ انتظار کراتا۔ دیر ہو جاتی تو استاد خفا ہوتے۔جمعہ کے جمعہ پورے گاؤں سے چندہ مانگنے کے لئے نکلنا پڑتا۔
ُ  ُ ہم جی غریب  طالبعلم ہیں سامنے والے مدرسےمیں پڑھتے ہیں۔ہمیں اپنے مدرسے میں تعلیم اورکھانے کے لئے پیسے چاہییں۔اللہ آپکو ثواب دیگا”
ُ  ُچلو چلو تم لوگوں کا کبھی پیٹ نہیں بھرے گا۔”ُ  ُبیٹا معاف کرو۔” اور ایسے جملے سننے کو ملتے جیسے بھیک مانگ رہے ہوں۔ماں باپ کے گھر تو گرم گرم روٹیاں صبح ماں کے ہاتھ کی ملتی تھیں۔یہاں مانگے تانگے کا باسی ٹھنڈا کھانا ملتا۔تمام طالب علم کھانا گھروں سے اکٹھا کرتے اور کھاتے۔اس میں اکثر خراب اور بدبو دار کھانا بھی ہوتا تھا۔ لوگ کئی کئی دنوں کا رکھا ہوا کھانا  بھی دےدیتے تھے۔
وقت گزرتا گیا۔چندہ مانگنے کی تمہید میں اللہ رسول جنت دوزخ  گناہ ثواب بھی  شامل ہو گئے۔ عاجزی انکساری خوشامد چاپلوسی بھی بڑھتی گئی۔تعلیم پوری ہوتی گئی۔اب جب بھی ماں کے پا س آتا تو بتا تا کہ اب  اتنی آئتیں یاد کر لی ہیں۔ اب میں نےاتنے پارے ترجمے کے ساتھ پڑھ لئے ہیں۔ مجھے ابواب الصرف  کی کتاب سب سے اچھی جاننے پر شاباش ملی ہے۔عربی کا معلم بھی پڑھ لی ہے۔ ایسے باتیں کرتا کہ جیسے ماں کو یہ سب معلوم ہے۔ ماں بیچاری بس سنتی اور ماشااللہ جزاک اللہ  کرتی رہتی۔ ایک بار آکر بتایا کہ اس نے منطق فلسفہ مشکواۃ شریف بھی ختم کر لئے ہیں اور اب نسائی ترمزی ابو داؤد شریف اور مسلم شریف بخاری شریف مکمل کر رہا ہوں علم المیراث بھی شروع کر دی ہے۔ تھوڑی تھوڑی مسیں  بھیگنے لگیں۔دو سال بعد خوشخبری سنائی کہ  ماں میں نے امتحان دے دیا ہے۔اب بہت جلد درس نظامی پاس کر کے تیرے پاس آجاؤنگا۔ چندے کا اور بھیک مانگ مانگ کر کھانا مجھے سخت ناپسند ہے۔اب بھی سند جب ملے گی جب میں در در جاکر چندہ کر کے دس ہزار جمع نہیں کرا دیتا۔تو ماں میں کل سے چندے کی مہم پر نکلوں گا۔
رومال کندھے پر سر پر ٹوپی۔ داڑھی میں تیل آنکھوں میں سرمہ کپڑوں پر خوشبو لگا کر چندے کے لئے نکل پڑا۔ کوئی خاص میدان تو اس کام کے لئے تھا نہیں۔بس گھر سے نکلا بس اسٹاپ تک دس بارہ دکانداروں کے منہ لگتا ہوا طرح طرح کی باتیں سنتا ہوا  پہنچ گیا۔ شہر جانے والی بس میں سوار ہوا چندہ مانگتا مانگتا اگلے اسٹاپ پر اتر گیا۔پھر دوسری اورپھر تیسری بس، یوں مانگتے مانگتے چلتے چلتے وہ شہر پہنچ گیا۔بازار میں دکانوں پر رسید بک لئے سارا دن گزار دیا۔رات کو ایک مسجد میں سونے کے لئے چلا گیا۔اس کا خیال تھا کہ اسےمولوی ہونے کے ناتے رات کو سونے کی جگہ مل جائے گی لیکن یہ مسجد دوسرے فقے کی تھی اور اس میں شیر خان کے فقے والوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ناچار ایک  اچھے گھر کا دروازہ  کھٹکھٹایا۔ صاحب خانہ نے دروزہ کھولا اور وہی رٹے رٹائے جملے جی میں غریب طالبعلم ہوں۔ مجھے رات گزارنی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسافروں کی مدد کرنے کا یہ صلہ دیتا ہے وہ صلہ دیتا ہے جنت میں اس کے لئے ایسا مکان ہوتا ہے ویسا مکان ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ صاحب خانہ نے اپنے ایک ملازم کو بلایا اور کہا کہ اس کو باڑے میں لے جاؤ  اور بستر دے دو۔
ایسی رات اللہ دشمن کوبھی نہ دے۔ ہر طرف بھینسیں اور گوبر۔مچھر اور بدبو۔پھر آدھی رات تک گوالوں کی کھٹ پٹ باقی رات میں بھینسوں کو دودھ نکال  کرباہر شفٹ کرنا۔ مچھر جو بھینس کی کھال کو کاٹتے تھے انہیں یہ آسان کھال مل گئی تو سب نے ہلہ بول دیا۔ اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی ۔ گوالے سے پوچھا کہ اہل سنّت کی مسجد کونسی ہے۔اس نے کہا جی مجھے کیا پتہ میں تو عید پر عید گاہ جاتا ہوں اور نماز پڑھ لیتا ہوں۔ایک مسجد جس کی اذان کی آواز آئی اس میں داخل ہو کر نماز پڑھی۔اور کام شروع کر دیا۔ مسجد ہی میں چندہ مانگنا شروع کیا تو امام اور اس کے حواریوں نے خوب خبر لی ا ور شیر خان پٹتے پٹتے بچا۔خیر بازاروں،بسوں اور گھروں سے چندہ مانگتے مانگتے ایک ماہ میں دس ہزار پورے کر لئے۔
  اپنے مدرسے میں پہنچا۔نتیجہ آچکا تھا۔ دس ہزارروپے دے کر اپنی سند لی۔اپنے استاد سے اجازت لینے ان کے حجرے میں گیا۔انہوں نے بہت دور ایک مسجدکا پتہ بتایا کہ وہاں مصلیٰ خا لی ہونے والا ہے۔ بس پکڑ کر استاد  کا خط لے کر وہاں پہنچا۔مسجد کمیٹی والوں کو خط دیا۔انہوں نے کہا نئے ہو۔ہمیں تو تجربہ کار خطیب کی ضرورت ہے۔چلو دیکھ لیتے ہیں۔کل جمعہ پڑھا کر دکھاؤ پھر دیکھیں گے۔رات بھر شیر خان جمعہ کے خطبے کے موضوعات سوچتا رہا۔ کس پرموضوع سے شروع کرے اور کس پر ختم کرے۔
اللہ اللہ کر کے خطبے کا وقت آیا۔بڑی تیاری کے ساتھ خطبہ دیا  جنت دوزخ، قبر کا عذاب،ستّر حوریں اور  پل صراۃ کی نمازیوں کو سیر کرائی۔پھر جماعت کرائی۔ دعا کے بعد اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے مسجد کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ایک ممبر نے کہا کہ ابھی آپ کچے ہیں۔ ابھی تیاری کی ضرورت ہے۔ دوسرے نے کہا کہ مولوی صاحب آپکو اپنی تعلیم کے دوران محنت کرنی چاہئے تھی۔تیسرے نے کہاکہ آپ کو کوئی مناسب موضوع چننا  چاہئے تھا۔ یہ سب جو آپ نے بتایا وہ تو سب جانتے ہیں۔شیر خان اندر ہی اندر کڑھتا رہا کہ جن کو پورے کلمے تک نہیں آتے اوراپنی چودھراہٹ پیسے اور زمین کے زور پر مسجد کمیٹی کے ممبربنے ہوئے ہیں وہ مجھے موضوعات بتا رہے ہیں۔ کوئی عالم ہوتا ،کوئی پڑھا لکھا ہوتا تب تو کوئی بات تھی۔بہر حال رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی تھی۔کیا کیا اعتراضات ہوئے اسے نہیں معلوم۔ وہ تو اپنی سوچوں میں گم تھا۔اچانک جب  مسجد کمیٹی کے صدر نے اپنا فیصلہ سنایا تو اسے ہوش آیا۔
ُ  ُ مولوی صاحب اگرچہ آپ اس منصب کے قابل تو نہیں ہیں،لیکن مولوی عبدالستار صاحب نے بھیجا ہے تو آپ کو رکھ لیتے ہیں۔آپ کو دو ہزار روپے ماہانہ ہدیہ ملے گا۔کھانا آپ کو گھروں سے مل جایا کرے گا۔ایک حجرہ آپ کو مل جائے گا جس میں آپ رات کو سوئےتھے وہی۔سال میں دو جوڑے ہدیہ ملے گا۔ آپ کو دو ہزار روپے سوکھے بچیں گے۔”
مسجد کمیٹی کے صدر کا فیصلہ سن کر اسے بہت ملال ہوا کہ اس دور میں جب مزدور پانچ چھ سو روپے روز مانگتا ہے۔اس کی تنخواہ صرف دو ہزار رکھی ہے۔قہر درویش برجان درویش۔سوائے قبول کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔حجرہ وہ جس میں کوئی کھڑکی نہیں۔کوئی واش روم نہیں، کوئی پانی نہیں۔نہانے کے لئے اور حوائج ضروری کے لئے مسجد کے بیت الخلاء اور حمام موجود تھے۔ایک ماہ تک شیر خان اس مسجد میں نمازیں پڑھاتے رہے۔اندازہ ہوا کہ بس آسمانوں  کی بات کرنی ہے ۔اتنا ثواب، اتنی حوریں،دودھ کی نہریں،شہد کی نہریں، اس عبادت کا اتنا ثواب اُس عبادت کا اتنا ثواب۔ زمین کی بات کہ جو ناانصافی کرے گا اسکا حشر کیا ہوگا،جو ہاری کے پیسے نہیں دے گا اس کا کیاہوگا،جو جمعہ پڑھنے نہیں آتا اس کا کیا گناہ ہے،جو کم تولتا ہے اس کا کیا عذاب ہے،جو یتیموں کی زمین پر قبضہ کرے گا اس کا کیا ہوگا۔ اس قسم کی باتیں شجر ممنوعہ ہیں۔بس آسمانوں پر ہی ساری تعلیمات اور خطبے گھماتے جاؤ ورنہ نوکری جاتی رہے گی۔
کھانا ایسے ملتا جیسے فقیروں کو دیا جاتا ہے۔باسی ٹھنڈا اور بدذائقہ۔کبھی کسی کو یہ نصیب نہ ہوا کہ آج تازہ اور اچھا کھانا بھیج دیں۔چند دن کھانا آتا رہا ۔ ُ  ُ مولوی صاحب آپ کچھ زحمت کر لیا کیجئے۔بچوں کے اسکول کھل گئے ہیں۔ خود آکر لے جایا کریں۔” اب زمانہء طالب علمی کی طرح چوہدری کے گھر جاکر کھانا مانگ کر لانا پڑتا تھا۔ایک ماہ بعد تنخواہ نہیں ملی۔ انتظار  کیا دو ہفتے اور گزر گئے۔اب جو جمعہ پڑھایا اس میں شیر خان آسمان سے زمیں پر اتر آئے۔ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ  خشک ہونے سے پہلے دینی چاہئیے ۔جو لوگ دوسروں کا حق مارتے ہیں ان کو اللہ معاف نہیں کرے گا۔اگر کسی کی مزدوری واجب ہو گئی ہے اور وقت پر نہیں دی تو اس کا کیا عذاب ہے وغیرہ وغیرہ۔اس خطبے کے بعد تو مسجد کمیٹی کو سانپ سونگھ گیا۔شیر خان کی تنخواہ اسی دن مل گئی۔صدر صاحب نے کہا کہ خطبے میں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔
شیر خان رات کو   حجرے کے باہر سوئے۔صبح نماز کے بعد ٹہلنے نکلے تو ایک فاختہ اپنے بچوں کو چونچ میں دانہ دے رہی تھی اور کچھ بلبلیں درخت پر چہچہا رہی تھیں۔انہیں اپنی ماں یاد آگئی بلبلوں کو دیکھ کر اپنی آزادی یاد آگئی۔باغ میں گھاس پر لیٹ کر   سوچنے لگے کہ اے شیر خان،تیرے باپ نے تیر انام شیر خان رکھا۔تو  آزاد  پیدا ہوا۔ پچھلے دس بارہ سال سے خیرات کھا رہا ہے۔میں جی غریب طالبعلم ہوں کہتے کہتے تیری غیرت مر گئی۔ تو شیر خان ہے یا گیدڑ خان ہے۔اپنے دل کی بات،صحیح مذہب کی بات،درست تبلیغ کی بات نہیں کر سکتا۔ زمینی حقائق پر نہیں آسکتا۔ بس آسمان پر ہی گھومتا رہوں ۔ واہ رے شیر خان۔کیا پایا تو نے یہ سب کچھ کرکے۔اپنی عزّت غیرت کا جنازہ نکال دیا۔گیدڑ بھی اپنی روزی روٹی مانگ کر نہیں چھین کر کھاتے ہیں۔
ُ  ُ اماں اماں میں آ گیا ہوں”
  ُ  ُ شیر خان  میرے بچے آمیرے بچے ساٹی فیکیٹ مل گیا میرے بچے کو۔خان جی دیکھو شیر خان آیا ہے۔ساٹی فیکیٹ لے کر۔ میرا بچہ عالم بن گیا ہے۔میں دیگ بانٹوں گی لال بابا کے مزار پر”
ُ  ُاماں  میں اب ہمیشہ کے لئے آ گیا ہوں۔ اب کبھی دور نہیں جاؤں گا اپنی ماں کو چھوڑ کر۔کل سے میں اسٹاپ پر جاؤنگا چھلیاں بیچنے،اماں مسجد میں خیرات کھانے سے اچھا ہے کہ آدمی اپنی محنت سے کما کر کھائے”
ُ  ُ بیٹا تو عالم ہے۔ہم سے بہتر جانتا ہے۔بس ہماری بخشش کی دعا کرتے رہنا۔اور جو مرضی آئے کر میرے بچے۔میں اسی میں خوش ہوں”۔ ُ      ُ چل منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھالے” شیر خان کو کھانا کھاتے وقت فاختہ اور اس کا بچہ یاد آگئے۔






No comments:

Post a Comment